قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۲۱﴾ۙ

۱۲۱۔کہنے لگے: ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔

رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔ جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔

قَالَ فِرۡعَوۡنُ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ۚ اِنَّ ہٰذَا لَمَکۡرٌ مَّکَرۡتُمُوۡہُ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لِتُخۡرِجُوۡا مِنۡہَاۤ اَہۡلَہَا ۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ فرعون نے کہا: قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا تم اس پر ایمان لے آئے یقینا یہ تو ایک سازش ہے جو تم نے اس شہر میں کی ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے بے دخل کرو پس عنقریب تمہیں (اس کا انجام ) معلوم ہو جائے گا۔

لَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کاٹوں گا پھر تم سب کو ضرور بالضرور سولی چڑھا دوں گا۔

قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ﴿۱۲۵﴾ۚ

۱۲۵۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

وَ مَا تَنۡقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتۡنَا ؕ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ﴿۱۲۶﴾٪

۱۲۶۔اور تو نے ہم میں کون سی بری بات دیکھی سوائے اس کے کہ جب ہمارے رب کی نشانیاں ہمارے پاس آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اس دنیا سے مسلمان اٹھا لے۔

124 تا 126۔ ایمان قبول کرنے والے جادوگر عبادت گاہوں کے کاہن لوگ تھے جو سرکاری ملازمین اور معبود بادشاہ کے وظیفہ خوار تھے۔ جو کل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعوائے رسالت کو باطل ثابت کرنے کی انتھک کوشش کر رہے تھے، آج نہ صرف اس رسالت پر ایمان لاتے ہیں بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

طاغوت کو اپنی رعیت کی ہر حرکت اور ہر جنبش پر تسلط حاصل ہے اور اس مملکت میں اس کی اجازت کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اس کی مرضی کے بغیر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے پر برہم ہوتا ہے اور کہتا ہے میری اجازت کے بغیر تم موسیٰ علیہ السلام پر ایمان کیوں لائے۔ گویا طاغوت اس خیال میں ہوتا ہے کہ جس طرح لوگوں کی گردنوں پر اس کا تسلط قائم ہے، ان کے دلوں اور ضمیروں پر بھی اس کی حکومت ہے۔ وہ ہر رونما ہونے والے واقعات کو اپنے خلاف سازش سمجھتا ہے اور ہر بات پر اسے اپنے تخت و تاج کی فکر لاحق رہتی ہے، کیونکہ اللہ کی طرف دعوت اور فرعونیت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ تشدد، ظلم اور طاقت کا استعمال کرنا طاغوت کا پرانا طریقہ کار ہے اور حق کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ﴿۱۲۷﴾ ۞ٙ

۱۲۷۔ اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: فرعون!کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھ سے اور تیرے معبودوں سے دست کش ہو جائیں؟ فرعون بولا: عنقریب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور ہمیں ان پر بالادستی حاصل ہے۔

127۔ اس آیت میں جہاں فرعون کی طرف سے اسرائیلیوں کی نسل کشی کا ذکر ملتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اہل مصر کا معبود تھا اور خود فرعون کا کوئی اور معبود تھا۔ چنانچہ 1896ء میں قدیم مصری آثار کا کتبہ برآمد ہوا ہے جو آج کل مصری میوزیم میں محفوظ ہے، اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ وہ عبارت درج ذیل ہے: جب سے دیوتا وجود میں آیا ہے اس وقت سے مصر معبود رع کی واحد نسل ہے اور منفتاح اسی معبود کی نسل ہے اور معبود شو کے تخت نشین ہیں اور معبود رع نے مصر کی طرف نظر ڈالی، اس سے منفتاح پیدا ہوا۔۔۔ اور اسرائیل کو مٹا دیا گیا۔ اس کا بیج بھی باقی نہ رہا اور فلسطین مصر کے زیر سلطنت آیا۔ (المنار 9: 80)

قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہِ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِاللّٰہِ وَ اصۡبِرُوۡا ۚ اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰہِ ۟ۙ یُوۡرِثُہَا مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو، بے شک یہ سرزمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور نیک انجام اہل تقویٰ کے لیے ہے۔

قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔ (قوم موسیٰ نے) کہا: آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیت دی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی، موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

وَ لَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ بِالسِّنِیۡنَ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔اور بتحقیق ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پیداوار کی قلت میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔