وَ مَا تَنۡقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتۡنَا ؕ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ﴿۱۲۶﴾٪

۱۲۶۔اور تو نے ہم میں کون سی بری بات دیکھی سوائے اس کے کہ جب ہمارے رب کی نشانیاں ہمارے پاس آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اس دنیا سے مسلمان اٹھا لے۔

124 تا 126۔ ایمان قبول کرنے والے جادوگر عبادت گاہوں کے کاہن لوگ تھے جو سرکاری ملازمین اور معبود بادشاہ کے وظیفہ خوار تھے۔ جو کل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعوائے رسالت کو باطل ثابت کرنے کی انتھک کوشش کر رہے تھے، آج نہ صرف اس رسالت پر ایمان لاتے ہیں بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

طاغوت کو اپنی رعیت کی ہر حرکت اور ہر جنبش پر تسلط حاصل ہے اور اس مملکت میں اس کی اجازت کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اس کی مرضی کے بغیر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے پر برہم ہوتا ہے اور کہتا ہے میری اجازت کے بغیر تم موسیٰ علیہ السلام پر ایمان کیوں لائے۔ گویا طاغوت اس خیال میں ہوتا ہے کہ جس طرح لوگوں کی گردنوں پر اس کا تسلط قائم ہے، ان کے دلوں اور ضمیروں پر بھی اس کی حکومت ہے۔ وہ ہر رونما ہونے والے واقعات کو اپنے خلاف سازش سمجھتا ہے اور ہر بات پر اسے اپنے تخت و تاج کی فکر لاحق رہتی ہے، کیونکہ اللہ کی طرف دعوت اور فرعونیت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ تشدد، ظلم اور طاقت کا استعمال کرنا طاغوت کا پرانا طریقہ کار ہے اور حق کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔