آیت 34
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اے ایمان والو! (اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔

تفسیر آیات

اہل کتاب سے جنگ کرنے کا حکم صادر فرمانے کے بعد وہ حقائق بیان ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے ایسا کرنا ضروری ہوا:

i۔ اہل کتاب کے عقائد بت پرستوں کے عقائد کے مشابہ ہیں۔

ii۔ ان کے علماء و شیوخ شریعت سازی میں دخل دیتے ہیں ، جس کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔

iii۔ وہ نور خدا کو بجھانے کی ناپاک کوششوں میں رہتے ہیں۔ اور دین حق والوں سے حالت جنگ میں رہتے ہیں۔

iv۔ وہ دین حق کی بالادستی سے کراہت کرتے ہیں۔

v۔ وہ دولت کے عادلانہ تقسیم کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس آیہ شریفہ میں اسی بات کا ذکر ہے۔

کسی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ایک اہم ترین بنیاد، دولت کی مساویانہ تقسیم ہے اور اس بات کے لیے ضروری ہے کہ اس معاشرے میں استحصالی عناصر کے لیے فضا سازگار نہ ہو۔ ورنہ دولت کی مساویانہ تقسیم ناممکن ہو جائے گی اور اس معاشرے کا سرمایہ چند ایک استحصالی عناصر کے ہاتھوں میں ارتکاز پیدا کرے گا۔

اہل کتاب کے مذہبی عناصر، جن پر عادلانہ نظام قائم رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی استحصالی عناصر میں تبدیل ہو گئے تھے۔ لہٰذا اس قسم کے غیر انسانی نظام کے حامل مذہب کو کسی بھی معاشرے پر بالادستی قائم رکھنے کا حق نہیں پہنچتا۔ ان کو طاقت کے ساتھ کسی عادلانہ نظام کے تحت لانا انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ: ارتکازِ دولت: اس کے بعد اس آیہ شریفہ میں بطور مطلق ایک اہم ترین اقتصادی مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے جو تمام ناانصافیوں کی جڑ اور دولت کی عادلانہ تقسیم کے لیے بدترین رکاوٹ ہے۔ وہ ہے دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز۔

کنز کی تعریف: کسی جگہ محفوظ یا مدفون دولت کو کنز کہتے ہیں۔ شریعت میں کنز کی کیا تعریف بنتی ہے؟ اقوال علماء میں اختلاف اور اضطراب ہے۔ کنز چند ہاتھوں میں سرمائے کا ارتکاز ہے؟ یا کنز سے مراد سرمائے کا انجماد ہے؟ یا کنز سے مراد مالی واجبات کی عدم ادائیگی ہے؟

ایک موقف یہ ہے کہ کنز سے مراد سرمائے کا انجماد ہے۔ ایک شخص اپنی دولت دفن کر کے یا سونے چاندی کو لاکرز میں بند محفوظ رکھتا ہے، یہ کنز ہے۔ اسی کی مذمت ہے۔ اگر وہ اپنے سرمائے کو منجمد نہ رکھے، ملکی اقتصاد میں شامل اور ملکی پیداواری عمل میں داخل رکھے، یہ کنز نہیں ہے لیکن اگلا جملہ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا اسے خرچ نہیں کرتے، اس موقف کی نفی کرتا ہے چونکہ پیداواری عمل میں شامل ہونے کو انفاق نہیں کہتے۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ کنز اس دولت کو کہتے ہیں جس کے مالی واجبات (جیسے زکوٰۃ) کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ اگر اس کے مالی واجبات ادا ہو جائیں تو یہ کنز نہیں ہے۔ اس موقف پر اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کل مایؤدی زکوتہ فلیس بکنز و ان کانت تحت سبع ارضین و کل ما لا یؤدی زکوتہ فہو کنز و ان کان فوق الارض ۔ (الوسائل ۹: ۳۰)

ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ ادا کی گئی ہے، وہ کنز نہیں ہے خواہ وہ سات زمینوں کے نیچے ہی کیوں نہ ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی، وہ کنز ہے اگرچہ وہ زمین کے اوپر کیوں نہ ہو۔

بظاہر حدیث کی نظر عدم ادائیگی پر ہے کہ واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے تھوڑا سرمایہ بھی کنز شمار ہو گا، ارتکاز سرمایہ پر نہیں ہے۔ یعنی کنز کے مصادیق میں سے ایک مصداق کا ذکر ہے نیز اس موقف پر آیت کے اس جملے سے بھی استدلال کیا جاتا ہے: وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ یہ لوگ دولت کو ذخیرہ کر رکھتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ یہاں اگر یُنۡفِقُوۡنَہَا میں انفاق سے مراد پوری دولت میں سے صرف زکوۃ کی مقدار مراد لی جائے تو یہ جملہ اس موقف پر دلیل بنتا ہے۔ جب کہ اس جملے میں انفاق کی نسبت پورے کنز کی طرف ہے کہ اس ذخیرے کو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ چونکہ ولا ینفقون منھا نہیں فرمایا کہ ایک حصہ مراد لیا جائے بلکہ پورا ذخیرہ مراد ہے چونکہ پورا ذخیرہ اس کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۱۹)

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہدیجیے جو ضرورت سے زیادہ ہو۔

تیسرا موقف یہ ہے کہ کنز سے مراد سرمایے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے۔ یَکۡنِزُوۡنَ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سرمائے سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ اس کو ذخیرہ کرتے ہیں۔ سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں۔ راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے بلکہ ان پر واجب یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی کو راہ خدا میں خرچ کریں چونکہ دولت کو ذریعہ نہیں ، مقصد قرار دے کر اس پر اضافہ کرتے چلے جانا ممنوع ہے کیونکہ یہ

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔۔۔۔ (۸۹ فجر: ۲۰)

اور مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو۔

کے تحت آ جاتا ہے اور یہ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ ۔۔۔۔ ( ۵۷ الحدید: ۲۰) ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ (۶۳ منافقون: ۱۰)

اور جو رزق ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے پھر وہ کہنے لگے: پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں صدقہ دیتا اور میں (بھی) صالحین میں سے ہو جاتا۔

درست ہے اسلام نے فردی ملکیت کو قبول کیا ہے تاہم اس ملکیت کو بے لگام بھی نہیں چھوڑا ہے اور چند ہاتھوں میں ارتکاز سرمایہ کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔ ہاں ! اگر کوئی سرمایہ محروم لوگوں کے مفاد میں ہے تو وہ کنز نہیں ہے۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک شخص کے پاس بڑا سرمایہ موجود ہے ، اس کو وہ قومی پیداواری عمل میں شامل رکھتا ہے اور اس سے ہونے والے منافع کو وہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے۔ اس صورت میں یہ سرمایہ کنز یعنی ذخیرہ نہیں ہے، نہ ہی اس سے وہ اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے بلکہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے۔ اگر سرمایہ میں اضافہ ہوتا بھی ہے تو اس سے راہ خدا میں خرچ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

تبادل: غیر متمدن انسان کو تبادلہ مال کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق کمائی کرتا تھا۔ انسان نے جب تمدن میں قدم رکھا اور تسخیر طبیعت کا تجربہ آگے بڑھا تو بعض چیزوں کو اپنی ضرورت سے زیادہ کمانا شروع کیا اور بعض دیگر ضرورت کی چیزوں کو دوسروں سے لینا پڑا تو تبادلہ مال بہ بال کی ضرورت پیش آئی۔ اس طرح تبادل پیداوار اور مصرف کے درمیان ایک ذریعہ بن گیا لیکن یہاں ایک خرابی وجود میں آ گئی۔ وہ یہ کہ مفاد پرستوں نے اس تبادل سے ذخیرہ اندوزی کرنا شروع کیا۔ اس سے تبادل، پیداور اور ذخیرہ اندوزی کے درمیان ذریعہ بن گیا۔

مال کے مقابل مال کے تبادلہ میں بعض اوقات مشکلات پیش آتی تھیں۔ مال کبھی قابل تقسیم نہیں ہوتا اور کبھی خود مال کا پیش کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے مال بمقابلہ نقد وجود میں آیا۔ یہ تبادل چونکہ قدرتی نہیں ہے جیسے مال بمقابلہ مال ہے بلکہ انسان کا ساختہ ہے، اس لیے نقد کی وجہ سے ارتکاز سرمایہ اور ذخیرہ اندوزی آسان ہو گئی۔ مال کا تبادلہ مال سے ہونے کی صورت میں مال کی قیمت کا تعین رسد اور طلب سے ہوتا تھا لیکن نقد نے رسد اور طلب کے توازن میں ذخیرہ اندوزی کے ذریعے خلل ڈالا چونکہ نقد میں تبادلہ ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزی کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اس طرح نقد، پیداوار بڑھانے کا نہیں ، دولت بڑھانے کا ذریعہ بن گیا۔ اسلام نے ذخیرہ اندوزی کے خلاف درج ذیل قوانین بنائے:

الف: ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے (اسراف) کی ممانعت۔

ب: سونا چاندی پر ہر سال زکوٰۃ۔

ج: سود لینا حرام۔

د: اسلامی حکومت کو نظارت کا حق دیا۔

البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ اسلام نے ملکیت کے لیے کسی حد کا تعین نہیں کیا۔ ذخیرہ کرنے والا اپنے مال کا مالک رہے گا جب تک شرعی حکومت اس کو اجازت دے۔ ولی امر کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس کی ملکیت کو محدود کرے۔

واؤ کا مسئلہ: حضرت عثمان کے زمانے میں حضرت ابی بن کعب کی سربراہی میں قرآن ایک ہی قرائت کے مطابق لکھا جا رہا تھا۔ اس وقت یہ کوشش کی گئی کہ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ میں الَّذِیۡنَ سے پہلے واؤ نہ لکھی جائے۔ حضرت ابی بن کعب نے اس کے خلاف مقاومت کی اور کہا یہ واؤ نہ لکھی گئی تو ہم تلوار اٹھائیں گے۔ چنانچہ واؤ لکھی گئی۔ ( الدر المنثور طبع دار الکتب بیروت ۱۹۹۰ء۔ حضرت اُبی کا حضرت عمر کے زمانے میں وفات پانا ثابت نہیں ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ وہ عہد عثمان تک زندہ تھے)۔

ظاہر ہے واؤ نہ لکھنے کی صورت میں یہ آیت صرف اہل کتاب کے ساتھ مختص ہو جاتی اور مسلمان اس میں شامل نہ ہوتے۔ چنانچہ معاویہ کا یہ مؤقف تھا کہ ذخیرہ اندوزی کی مذمت صرف اہل کتاب کے لیے ہے، مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ حضرت ابوذرؓ کا مؤقف یہ تھا کہ اس آیت میں اہل کتاب اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ ( تفسیر المنار ۱۰: ۴۰۵۔) یعنی ذخیرہ اندوزی اور سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز مطلق ممنوع ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں اقتصادنا از شہید باقر صدرؒ ۔)

اہم نکات

۱۔ اسلام کسی قسم کے مالی استحصال کی ہرگز اجازت نہیں دیتا: لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ۔۔

۲۔ ذخیرہ اندوزی اور ارتکاز دولت کا مرتکب جہنمی ہے: یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ ۔۔۔۔


آیت 34