آیت 33
 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔

تفسیر آیات

اس وقت ادیان عالم میں صرف دین اسلام ہے جو سندِ متّصل اور قطعی ذرائع کے ساتھ تواتر سے ثابت ہے۔ وہ واحد دین ہے جس کی تاریخ محفوظ ہے اور اس دین کادستور قرآن مجید حرف بحرف محفوظ ہے۔ لہٰذا ادیان عالم میں یہی دین، دین حق ہے۔

لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ: یہ دین آیا اس لیے ہے کہ تمام ادیان پر غالب آئے۔ تمام اقوام عالم کی قیادت کرے۔ پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے۔ تمام مظلوم قوموں کی داد رسی کرے:

وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔۔۔ ( ۷ اعراف : ۱۵۷)

اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔۔۔۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ہر مفسر نے اپنے عصر کے حالات کو سامنے رکھ کر تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس آیت کی تشریح کرنے میں دشواری پیش آئی اور تاویل کا سہارا لینا پڑا کہ بالادستی اور غالب آنے سے مراد منطق و استدلال کی بالادستی ہے۔ کچھ اہل قلم نے تو یہ بھی کہدیا کہ مراد صرف جزیرہ عرب ہے کہ یہاں اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا۔

جب کہ قرآنی تعبیر کسی ایک زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تمام ازمان و اعصار پر محیط ہے۔ ثانیاً اللہ کی سنت میں تشریعی و تکوینی ارتقا تدریجی ہے۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں خلق فرمایا ہے۔ اللہ کے چھ دن بہت بڑی مدت ہوتی ہے اور تشریع میں بھی دین الٰہی آدمؑ سے لے کر خاتمؐ تک بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتا رہا ہے اور اس آخری نظام حیات کو بھی اسی تدریجی ارتقائی مراحل سے گزارنا ہے:

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ۔۔۔۔۔ ( ۴۱ فصلت: ۵۳)

ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے۔

البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ واضح اور مسلم ہے کہ دین اسلام اپنی جامعیت اور ایک کامل نظام حیات ہونے میں سب ادیان پر بالا دست ہے۔ اسلام اپنے دستور حیات میں کسی اور دین اور قانون کا محتاج نہیں ہے کہ اس دین میں کوئی کمزوری ہو جسے دوسرے ادیان سے دور کیا جائے۔ یہ بھی ایک غلبہ ہے۔ رہا اس جامع اور کامل دستور حیات کے نفاذ کا مرحلہ تو اس کے لیے ہم ایک نافذ کنندہ الٰہی طاقت کے منتظر ہیں۔

جب انسانیت مادیت کی اندھی تاریکی میں مزید ڈوب جائے گی، ہر طرف یاس و نامیدی کے سیاہ بادل چھا جائیں گے اور امن و سکون عنقا بن جائے گا، اس وقت لوگ امن دہندہ کی تلاش میں ہوں گے، ایک نجات دہندہ کو پکاریں گے، جس سے ایک عالمگیر عادلانہ نظام کے لیے زمین ہموار ہو گی اور یہ دین تمام ادیان پر غالب آئے گا۔

سنت نبویؐ میں یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو یہ دین تمام ادیان پر غالب آئے گا اور آپؑ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے، جیسے ظلم وجور سے پر ہو گئی ہو گی۔

احادیث ظہور مہدیؑ کے لیے ملاحظہ فرمائیں صحیح ترمذی، سنن ابی داؤد کتاب الہدیٰ، مسند احمد بن حنبل، مستدرک حاکم اور سنن ابن ماجہ کتاب الفتن وغیرہ ۔


آیت 33