آیات 130 - 131
 

وَ لَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ بِالسِّنِیۡنَ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔اور بتحقیق ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پیداوار کی قلت میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

فَاِذَا جَآءَتۡہُمُ الۡحَسَنَۃُ قَالُوۡا لَنَا ہٰذِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا بِمُوۡسٰی وَ مَنۡ مَّعَہٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔پس جب انہیں آسائش حاصل ہوتی تو کہتے: ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر برا زمانہ آتا تو اسے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی بدشگونی ٹھہراتے، آگاہ رہو! ان کی بدشگونی اللہ کے پاس ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

تشریح کلمات

سنین:

( س ن و ) سنۃ کی جمع۔ اس کے معنی سال کے ہیں۔ زیادہ تر سنۃ کا لفظ قحط والے سال کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

یَّطَّیَّرُوۡا:

( ط ی ر ) تطیر ۔ ا س کے اصل معنی کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں۔پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے۔ چونکہ بعض پرندوں، جیسے کوے سے بد شگونی لیتے تھے۔ اس سے ہر بدشگونی کے لئے تطیر کہدیا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ: فرعونیوں نے پہلے قحط سالی نہیں دیکھی تھی۔ حضرت موسیٰ (ع) کی نافرمانی پر قحط سالی آگئی تو بجائے اس کے کہ اس کو عذاب الٰہی اور معجزہ موسیٰ (ع) تصور کریں، اس کے برعکس اس کو حضرت موسیٰ (ع) کی بدشگونی قرار دیا حالانکہ یہ موسیٰ (ع) کی بدشگونی نہیں، یہ اللہ کی طرف سے عذاب ہے۔

۲۔ فَاِذَا جَآءَتۡہُمُ الۡحَسَنَۃُ: جب ملک میں شادابی اور خوشحالی آ جاتی تو کہتے تھے یہ خوشحالی ہماری وجہ سے آئی ہے یا ہمارے معبودوں کی طرف سے ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ: اگر کوئی برا وقت آتا تو وہ اس کو عذاب الٰہی اور معجزہ موسیٰ (ع) کہنے کی جگہ حضرت موسیٰ (ع) کی بدشگونی سمجھتے تھے۔ ہو سکتا ہے شروع میں اسے بدشگونی قرار دے کر اپنے عوام کی توجہ حضرت موسیٰ (ع) سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔ چونکہ اسی سورہ کی آیت ۱۳۴ میں آیا ہے کہ وہ اسے حضرت موسیٰ (ع) کا معجزہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے اگر آپ نے یہ عذاب ہم سے دور کر دیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔

۴۔ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ: ان کے لیے یہ بدشگونی اللہ کی طرف سے ہے۔ یعنی یہ عذاب الٰہی ہے، موسیٰ (ع) کی بدشگونی نہیں ہے۔

بدشگونی کی شرعی حیثیت: اگرچہ شرعاً نیک شگونی کے اثرات تسلیم کیے گئے ہیں لیکن بدشگونی کو قبول کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:

اجتنب خمساً: الحسد، الطیرۃ، البغی و سوء الظن و النمیمۃ ۔ (مستدرک الوسائل: ۱۲: ۸۲)

پانچ چیزوں سے اجتناب کرو۔ حسد، بدشگونی، زنا، بدگمانی اور چغل خوری سے۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

۔۔۔ وَ الطِیَرَۃُ لَیْسَتْ بِحَقِّ ۔ (نہج البلاغۃ حکمت ۴۰۰ )

بدشگونی حق پر مبنی نہیں ہے۔

بدشگونی کے بے حقیقت ہونے پر دلیل، مختلف اقوام میںموجود متضاد بدشگونیاں ہیں۔ مثلاً بعض اقوام میں کوے کا بولنا جدائی اور بعض اقوام میں وصال کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ جب عذاب الٰہی سے عبرت لینے کی بجائے اس کی تاویل و توجیہ کرتے ہیں تو ایسی قوم ناقابل ہدایت ہوتی ہے۔

۲۔ بدشگونی اللہ پر بھروسے کے منافی ہے۔


آیات 130 - 131