آیات 83 - 84
 

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے، پھر تم نے اس کا اقرار کر لیا جس کے تم خود گواہ ہو۔

تشریح کلمات

‌الۡقُرۡبٰی:

(ق ر ب) قریب کا وصف تفضیلی ہے۔ مذکر کے لیے اقرب اور مؤنث کے لیے قربیٰ آتا ہے یعنی سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار۔

وَ الۡیَتٰمٰی:

( ی ت م ) یتیم و یتیمہ کی جمع۔ ہر منفرد چیز کو یتیم کہتے ہیں۔ مثلاً دُرَّۃٌ یَتِیْمَۃٌ منفرد موتی۔ بلوغ سے پہلے جس کا باپ مر جائے اسے یتیم کہتے ہیں۔ جس جانور کی ماں مر جائے، اسے بھی یتیم کہتے ہیں، کیونکہ یتیم منفرد چیزوں کی طرح تنہا ہوتا ہے۔

وَ الۡمَسٰکِیۡنِ:

( س ک ن ) مسکین کی جمع۔ نادار کو فقیر اور زیادہ نادار کو مسکین کہتے ہیں۔

تَوَلَّیۡتُمۡ:

( و ل ی ) وَلی سے فعل ماضی ہے اور منہ پھیرنے کے معنی میں ہے۔

تَسۡفِکُوۡنَ:

( س ف ک ) ناحق کسی شے کو بہا دینا۔ اکثر خون ناحق بہانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اَنۡفُس:

( ن ف س ) نَفس کی جمع ہے۔ یعنی حقیقت اور ہستی۔ انسان کو بھی نفس سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ یہ موجودات میں سب سے زیادہ قیمتی ہستی ہے۔ کچھ حضرات کے نزدیک نفس نفاست سے ماخوذ ہے۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل کے عبرت انگیز تاریخی واقعات بیان فرمانے کے بعد اب اس عہد و پیمان کا تذکرہ ہے جو ان کے انفرادی و اجتماعی امور کی تنظیم کی خاطر کیا گیا۔ مخفی نہ رہے کہ بنی اسرائیل کے واقعات اس اہتمام کے ساتھ اس لیے بیان ہوئے ہیں کہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے پہلی دینی تحریک کا حصہ تھے۔ عہد و پیمان ان نکات پرمشتمل تھا :

۱۔ خدائے واحد کی عبادت۔

۲۔ والدین سے حسن سلوک اور نیکی۔

۳۔ قریب ترین رشتہ داروں سے نیکی و احسان۔

۴۔ یتیموں سے شفقت و نیکی۔

۵۔ مسکینوں اور ناداروں سے حسن سلوک۔

۶۔ لوگوں سے خوش کلامی۔

۷۔ اقامۂ نماز۔

۸۔ ادائے زکوٰۃ۔

۹۔ ناحق خونریزی سے اجتناب۔

۱۰۔ اپنی قوم کے افراد کو جلا وطن نہ کرنا۔

البتہ یہ سارا عہد صرف بنی اسرائیل سے ہی مخصوص نہیں،بلکہ اسلامی تعلیم و تربیت کے ہمہ گیر اصولوں کا حصہ بھی ہے۔ اس آیہ مبارکہ میں خدائے واحد کی عبادت کے بعد والدین پر احسان کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی عبادت کے بعد جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، وہ والدین پر احسان ہے۔ ناشکرے انسانوں کو اس تاکید کی زیادہ ضرورت تھی۔

احسان ایک جامع ترین لفظ ہے، جس میں والدین کے تمام فطری، اخلاقی اور اجتماعی حقوق شامل ہیں۔

والدین کے بعد قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے نیکی اور احسان کا مرحلہ آتا ہے:

وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا ۔۔۔۔ اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ۔

قرآنی آداب اور اسلامی اصول، تربیت میں حسن گفتار کی خصوصی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ گفتارسے ہی انسان کے ما فی الضمیر کا اظہار ہوتا ہے، یہ باہمی تفاہم اور افہام و تفہیم کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ حسن گفتار میں جادو کا اثر ہے۔ جب کہ بدکلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خدائی دعوت و ارشادات میں گفتار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف تعبیرات کے ذریعے حسن گفتار کی تاکید فرمائی گئی ہے:

وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا {۴ نساء: ۵}

اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔

وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ۔ {۴ نساء : ۹}

انہیں چاہیے کہ سنجیدہ باتیں کریں۔

فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا ۔ {۱۷ اسراء : ۲۸}

ان سے نرمی کے ساتھ بات کریں۔

اس تاکید کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ حسن گفتار میں انسانی وقار اور احترام آدمیت محفوظ رہتا ہے جسے اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ارشاد قدرت ہے:

کچھ حضرات کا خیال ہے کہ آیہ: قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ {۹ توبہ : ۲۹} نے وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ قول حسن اور قتال، دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ لہٰذا یہ نسخ درست نہیں، کیونکہ نسخ وہاں ہوتا ہے، جہاں موضوع ایک ہو۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا کے بارے میں روایت ہے:

قُوْلُوْا لِلنَّاسِ اَحْسَنَ مَا تُحِبُونَ اَنْ یُقَالَ لَکُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ یُبْغِضُ السَّبَّاب اللَّعَّان الطَّعَّان عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ الفَاحِشَ المُفْحِشَ السَائِلَ وَ یُحِبُّ الحَیِّی حَلِیْم الْعَفِیفَ المُتَعفِّفَ ۔ {المیزان جلد اول ذیل آیہ۔ مجمع البیان ۱: ۱۹۲۔ بحار الانوار ۶۵ : ۱۵۲}

لوگوں سے ایسی اچھی باتیں کرو جنہیں تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ گالیاں دینے والے، مؤمنین کو طعن و تشنیع کرنے والے اور فحش گفتگو کرنے والے کو سخت ناپسند کرتا ہے، جب کہ باحیا، بردبار اور پاک دامن شخص کو پسند کرتا ہے۔

توریت کے صفحات میں اس عہد و میثاق کی بعض شقوں کا ہم آج بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ خروج ۲۰ : ۲۔ ۵ میں آیا ہے:

میرے آگے تیرا کوئی دوسرا خدا نہ ہووے۔ تو اپنے لیے تراشی ہوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے ہے، مت بنا۔ تو ان کے آگے اپنے تیئس مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر۔

تحقیق مزید:

آیت ۸۳: الکافی ۲: ۱۶۴۔ ۱۶۵۔ الفقیہ ۴: ۴۰۷۔ الوسائل ۸: ۳۰۱۔ مستدرک الوسائل ۸: ۳۱۴۔ ۱۲: ۸۲۔ ۱۲: ۳۷۷۔

آیت ۸۴ : الکافی ۲ : ۳۸۹۔ تفسیر العیاشی ۱ : ۴۸


آیات 83 - 84