آیت 67
 

لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ ۫ وَّ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

تشریح کلمات

نَبَاٍ: اس خبر کو کہتے ہیں جو بڑے فائدے پر مشتمل اور یقین اور ظن غالب کی موجب ہو اور خبر کو نباء نہیں کہتے، جب تک یہ تین باتیں اس میں پائی نہ جائیں: جس خبر کو نباء کہا جائے گا، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کذب کا شائبہ نہ ہو۔ جیسے متواتر اور اللہ و رسولؐ کی خبر۔ (راغب) لیکن قرآن میں فاسق کی خبر کو بھی نباء کہا ہے: اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ ۔۔۔ (۴۹ حجرات: ۶ )

مُّسۡتَقَرٌّ: جائے قرار۔ ٹھکانا۔ انجام کی منزل: حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ۔ (۲۵ فرقان: ۷۶) یہ اسم زمان و مکان ہے تاہم اس آیت میں اسم زمان مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔

تفسیر آیات

لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ: ہر خبر کی تحقق کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں روایت ہے:

لِکُلِّ نَبَأٍ حَقِیْقَۃٌ ۔ (تفسیر قمی ۱: ۲۰۴۔ تفسیر طبری ۱۱: ۴۳۵، باب ۶۶۔ تفسیر ابن کثیر ۳: ۲۷۷، باب ۶۹۔)

ہر خبر کے لیے ایک حقیقت اور واقعیت ہے۔

ہر پیشگوئی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے صادر ہوتی ہے، اپنے مقررہ وقت پر یقینا وقوع پذیر ہونے والی ہے۔ چنانچہ گزرے ہوئے واقعات کو خبر اور آنے والے کو اکثر نبأ کہتے ہیں ۔ جیساکہ حدیث رسولؐ میں قرآن کریم کے بارے میں آیا ہے:

فِیْہِ خَبَرُ مَنْ قَبْلَکُمْ وَنَبَأُ بَعْدَکُمْ ۔ (الکافی۲ : ۵۹۹ کتاب فضل القرآن، ح ۳۔ تفسیر عیاشی ۱: ۸ ح ۱۸۔ سنن دارمی ۲: ۵۲۷، باب فضل من قرأ )

اس میں تم سے پہلے والوں اور تمہارے بعد والوں کی خبریں ہیں۔

لِکُلِّ نَبَاٍ: اس میں وہ تمام پیشگوئیاں شامل ہیں جو قرآن نے فرمائی ہیں۔مثلاً:

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ۔۔۔ (۴۱ حٰمٓ السّجدہ : ۵۳)

ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے۔

ii۔ سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ (۵۴ قمر: ۴۵)

(قریش کی) یہ جماعت عنقریب شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔

iii۔ وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ (۳۷ صافات : ۱۷۳)

اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

iv۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ۔۔۔۔ (۵۸ مجادلہ : ۲۱)

اللہ نے لکھ دیا ہے: میں اور میرے رسول ہی غالب آکر رہیں گے۔۔۔

اور وہ پیشگوئیاں بھی شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں خود بیان فرمائیں اور رسول اللہ (ص) کے بعد ان کی طرف سے ان کے اوصیاء (ع) نے بیان کیں۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے خوارج کے بارے میں پیشگوئیاں بیان کرنے کے بعد اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (الوسائل ۱۱: ۶۵)

وَّ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ: اس آیت کی روشنی میں ایک وقت ایسا ضرور آنے والا ہے، جس میں قرآنی حقائق مجسم ہو کر سامنے آ جائیں گے اور وہ تمام حقائق بھی سامنے آ جائیں گے، جن کی خبر رسولؐ اور اوصیاء (ع) نے دی ہے۔

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا۔ اس وقت غلبہ اسلام کا تصور عام لوگوں کے لیے باعث تمسخر تھا۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے: ’’ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘ اگرچہ نزول سورہ کے وقت کوئی جنگ تھی نہ فتوحات، نہ لشکر، نہ ملت، نہ تعداد۔ جو کچھ آیا، وہ اس سورہ کے نزول کے بعد آیا۔ مکہ میں تو ’’عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔۔۔‘‘ کی آواز پر آوازیں کسنے کے سوا کوئی علامت بھی نظر نہیں آتی تھی۔ قرآن کی اس پیشگوئی پر فتح مکہ کے بعد یقین ہونے لگا۔ یہ قرآن مجید کا ایک زندہ معجزہ ہے۔

و لم اراحداً استوفی البحث حول ہذہ الایۃ ۔

اہم نکات

۱۔ وہ وقت یقینا آنے والا ہے، جس میں قرآنی حقائق کھل کر سامنے آئیں گے: وَّ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۔

۲۔ اللہ اور رسولؐ نے جب خبر دی ہے تو انتظار کرنا ہوگا، شک نہیں: لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ ۔


آیت 67