آیات 76 - 77
 

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَا بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ قَالُوۡۤا اَتُحَدِّثُوۡنَہُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ لِیُحَآجُّوۡکُمۡ بِہٖ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ جب وہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب خلوت میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: جو راز اللہ نے تمہارے لیے کھولے ہیں وہ تم ان (مسلمانوں) کو کیوں بتاتے ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان) اس بات کو تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟

اَ وَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔کیا (یہود) نہیں جانتے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے، خواہ وہ چھپائیں یا ظاہر کریں ؟

تشریح کلمات

یُحَآجُّوۡکُمۡ:

( ح ج ج ) مُحَاجَۃ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا، مناظرہ اور مجادلہ کرنا۔ حُجَّۃ غالب آنا۔ جس کے پاس دلیل ہوتی ہے وہ اپنے مد مقابل پر غالب آ جاتا ہے۔ اسی لیے دلیل کو حجت کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

ان لوگوں نے ایک خفیہ تنظیم قائم کر رکھی ہے اور وہ منظم انداز میں منافقت سے کام لیتے ہیں۔ جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور جب آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کا محاسبہ کرتے ہیں کہ مبادا کوئی شخص بے توجہی میں راز کی باتیں مسلمانوں کو بتا دے۔ چنانچہ اگر کوئی بھولے سے رسول اکرم (ص) کی حقانیت اور ان کی آمد کے بارے میں توریت کی پیشگوئیاں بیان کر دے توتنظیم اس کی سرزنش اس طرح کرتی ہے: قَالُوۡۤا اَتُحَدِّثُوۡنَہُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ لِیُحَآجُّوۡکُمۡ بِہٖ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ۔ جو (راز) اللہ نے تمہارے لیے کھولے ہیں وہ تم ان(مسلمانوں) کو کیوں بتاتے ہو ؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان ) اس بات کو تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟

دوسری آیت میں یہ بیان ہے کہ یہودیوں کا گمان ان کی مادی سوچ کی علامت ہے کہ اگر لوگوں سے کوئی بات چھپائی جائے تو وہ اللہ سے بھی چھپ سکتی ہے۔ وہ اپنے زعم باطل میں دلیل و حجت کو خدا سے پنہاں کر رہے ہیں، جب کہ اللہ ظاہر و باطن سب کو جانتا ہے۔

شان نزول

مجمع البیان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:

کَانَ قُوْمٌ مِنْ الَیَھُودِ لَیْسوُاْ مِنْ الْمعَانِدِیْنَ الْمُتَوَاطِیئنَ اِذَا لَقُو الْمُسْلَمِیْنَ حَدَّثُوھُمْ بمَا فِیْ التَّوْراۃِ مِنْ صِفَۃِ مُحَمَّدٍ فَنَھاھُمْ کُبَراَئُھُمْ عَنْ ذَلِکَ وَ قَالُوا: أَ تُخْبِرُوھُمْ بِمَا فِی التَّوراۃِ مِنْ صِفَۃِ مُحَمَّدِ فَیُحَاجُّوکُمْ بِہِ عِنْدَ رَبِّکُمْ فَنَزَلَتْ الآیَۃِ ۔ {مجمع البیان ۱: ۱۸۲۔ بحار الانوار ۹ : ۶۵}

یہودیوں کا ایک غیر متعصب گروہ مسلمانوں کو توریت میں موجود محمد (ص) کے اوصاف بتا دیتا تھا۔ چنانچہ سرکردہ یہودیوں نے اس گروہ کو روکا اور کہا: توریت میں مذکور محمد (ص) کے اوصاف سر عام بیان نہ کیا کرو، مبادا مسلمان انہیں اللہ کے سامنے حجت بنائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اہم نکات

۱۔ منافقین ہمیشہ خائف رہتے ہیں کہ کہیں حق ظاہر نہ ہو جائے۔

۲۔ یہودی اپنے مفادات کی خاطر حقائق کی پردہ پوشی کو عقل مندی سمجھتے تھے۔


آیات 76 - 77