آیت 75
 

اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کیا تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ (ان سب باتوں کے باوجود یہودی) تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے۔

تشریح کلمات

طَمَع:

( ط م ع ) خواہشات کی حسرت۔ البتہ کبھی نیک آرزؤں کو بھی طَمَع کہتے ہیں۔

تَحرِیف:

( ح ر ف ) بدل دینا۔ یعنی کسی چیزکو اس کے اصل رخ سے موڑ کر دوسری طرف کر دینا۔ تحریف کی دو قسمیں ہیں: تحریف لفظی اور تحریف معنوی۔ لفظی تحریف سے مراد یہ ہے کہ الفاظ میں تصرف کر کے کچھ سے کچھ بنا دینا اور معنوی تحریف کا مطلب یہ ہے کہ معنی اور مفہوم کی غلط توجیہ اور تاویل کرنا۔

تفسیر آیات

یہودیوں کی سرشت:اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں ان نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے، جن سے اس نے بنی اسرائیل کو نوازا :

انہیں تمام عالمین پر فضیلت دی۔

آل فرعون سے نجات دلائی۔

ان کے لیے دریا کو شق کیا اور فرعون کو غرق کیا۔

ان کے لیے چٹان سے چشمے نکالے۔

من و سلویٰ نازل کیا۔

انہیں گناہوں سے پاک کرنے کے لیے باب حطہ عنایت فرمایا۔

لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے ان تمام احسانات کا شکریہ ادا کر نے کی بجائے خدا کی نافرمانی کی:

انہوں نے گوسالہ پرستی اختیار کی۔

من و سلویٰ کو ٹھکرایا۔

جہاد سے انکار کیا۔

باب حطہ جیسی عظیم نعمت کا مذاق اڑایا۔

حضرت موسیٰ(ع) کے ہر حکم کی نافرمانی کی۔

سرکش یہودیوں کی تاریخ کے چند سیاہ باب ذکر فرمانے کے بعداب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے، جو دراصل مقصود کلام ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ ۔۔۔ کیا تم یہودیوں سے اس بات کی توقع رکھتے ہوکہ وہ تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے۔

ہمارے معاصر یہودیوں کے بارے میں اس آیہ شریفہ سے یوں رہنمائی لینی چاہیے کہ کیا ان یہودیوں سے انسان دوستی، انسانی حقوق اور باہمی تعاون کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کیا یہودی انسانی و اخلاقی اقدار پر ایمان لے آئیں گے؟ ہرگز نہیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہودیوں کی سرشت اور خصلت سے آگاہ فرما رہا ہے کہ ان سے کسی قسم کی توقعات وابستہ رکھنا درست نہیں۔

امت مسلمہ اگر قرآن کو اپنا دستور حیات بناتی تو آج وہ یہودیوں اور یہودیت نواز طاقتوں کی دست نگر نہ ہوتی، بلکہ اقوام عالم کی قیادت کا الٰہی فریضہ سر انجام دے رہی ہوتی۔

آیت کے دوسرے حصے میں یہودیوں کے ایمان نہ لانے کا سبب بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ کس طرح ایمان لا سکتے ہیں، جب کہ ان میں ایک منظم گروہ ایسا بھی ہے، جو کلام خدا کو سمجھ کر بھی اس میں تحریف کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ یہودیوں سے کسی بھلائی کی توقع خام خیالی ہے: اَفَتَطۡمَعُوۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ اگر کسی معاشرے میں ایسا گروہ پایا جائے جو منظم انداز میں احکام الہٰی میں تحریف (رد و بدل) کر رہا ہو تو اس معاشرے کی اصلاح مشکل ہے۔

تحقیق مزید: تفسیر القمی ۱ : ۵۰۔


آیت 75