آیت 115
 

وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور ہم اسے جہنم میں جھلسا دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔

تشریح کلمات

یُّشَاقِقِ:

( ش ق ق ) انشقاق ۔ مخالفت۔ گویا ہر فریق مخالفت کی ایک شق کو اختیار کر لیتا ہے۔

تفسیر آیات

حق اور ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد صرف عناد اور عصبیت کی بنا پر رسول اللہ (ص) کے حکم کی مخالفت کرنا اور رسول (ص) کی اطاعت میں اہل ایمان نے جو روش اختیار کی ہے، اس سے ہٹ کر اپنی خواہش کے مطابق کوئی اور سبیل تلاش کرنا کفر و ضلالت کی نشانی ہے۔ یہاں دو مسائل قابل توجہ ہیں:

i. وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: یعنی مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے۔ اس جملے میں بعض مفسرین نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے کہ جب کسی مسئلے میں مومنین نے اجماعاً ایک راستے کا انتخاب کر لیا تو دوسروں پر اس اجماع کی پیروی کرنا واجب ہے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ آیت کا کسی اجماع سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہاں رسول (ص) کی اطاعت اور عدم مخالفت کا ذکر ہے۔ مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اکرم (ص) کی عدم مخالفت اور اتباع میں مومنین نے جو روش بنائی ہے، اس سے ہٹ کر کوئی اور روش اختیار کرنے والا جہنمی ہے۔ جب کہ اجماع خود مومنین کی اپنی روش سے متعلق ہے۔

ii. نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی: جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے۔ اس جملے سے خیرہ و شرہ من اللہ کے نظریۂ جبر کا باطل ہونا نہایت واضح ہو جاتا ہے۔ انسان اپنے اعمال میں خود مختار ہے اور کسی قسم کا جبر اس پر حاکم نہیں ہے۔ اشاعرہ کے نظریہ جبر کے باطل ہونے پر صاحب تفسیر المنار کا اس جملے پر تبصرہ قابل مطالعہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ جو رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے، اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے: نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی ۔۔۔۔

۲۔ جس کو اللہ اپنے حال پر چھوڑ دے، یہ اس کے لیے بڑی سزا ہے: وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ۔۔۔۔


آیت 115