آیت 91
 

سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّاۡمَنُوۡکُمۡ وَ یَاۡمَنُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ کُلَّمَا رُدُّوۡۤا اِلَی الۡفِتۡنَۃِ اُرۡکِسُوۡا فِیۡہَا ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَعۡتَزِلُوۡکُمۡ وَ یُلۡقُوۡۤا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکُمۡ جَعَلۡنَا لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿٪۹۱﴾

۹۱۔ عنقریب تم دوسری قسم کے ایسے (منافق) لوگوں کو پاؤ گے جو تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر فتنہ انگیزی کا موقع ملے تو اس میں اوندھے منہ کود پڑتے ہیں، ایسے لوگ اگر تم لوگوں سے جنگ کرنے سے باز نہ آئیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام نہ دیں اور دست درازی سے بھی باز نہ آئیں تو جہاں کہیں وہ ملیں انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان پر ہم نے تمہیں واضح بالادستی دی ہے۔

تشریح کلمات

اُرۡکِسُوۡا:

( ر ک س ) کسی چیز کو اس کے سر پر الٹا کر دینا۔

تفسیر آیات

۱۔ سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِیۡنَ: دوسری قسم کے منافقین بھی ملیں گے۔ یہ منافقین بظاہر سابقہ منافقین کی طرح لگتے ہیں۔ وہ اظہار تو یہ کرتے ہیں ہم امن چاہتے ہیں لیکن ان کا ارادہ امن کا نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ایسے موقع پرست گروہ کی نشاندہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑنا ان کے مفاد میں نہیں ہے تو وہ نہیں لڑتے۔

۲۔ کُلَّمَا رُدُّوۡۤا اِلَی الۡفِتۡنَۃِ: لیکن اگر موقع ہاتھ آ جائے تو جنگ میں اوندھے منہ کود جاتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے مذکور منافقین کی طرح غیر جانبدار نہیں ہیں۔ وہ تم سے جنگ کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کو جہاں پاؤ قتل کرو۔

۳۔ فَاِنۡ لَّمۡ یَعۡتَزِلُوۡکُمۡ: یعنی یہ لوگ اگر تم سے الگ نہ رہیں وَ یُلۡقُوۡۤا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ اور صلح کا پیغام نہ دیں وَ یَکُفُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ اور دست درازی سے باز نہ آئیں، فَخُذُوۡہُمۡ ان کو گرفتار کرو وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ اور ان کو قتل کر دو۔

دیکھئے اسلامی جنگوں کی نوعیت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ اگر کافر اور مشرک مسلمانوں کے درپے ہوں، صلح نہ چاہتے ہوں اور دست درازی کرنے سے بھی باز نہ آئیں تو اس آتش فتنہ کو بجھا دو۔

۴۔ وَ اُولٰٓئِکُمۡ جَعَلۡنَا لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا: مذکورہ بالا حالات میں جنگ لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے۔


آیت 91