آیت 90
 

اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمۡ عَلَیۡکُمۡ فَلَقٰتَلُوۡکُمۡ ۚ فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ فَلَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ وَ اَلۡقَوۡا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سَبِیۡلًا﴿۹۰﴾

۹۰۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایسے لوگوں سے جا ملیں جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو یا وہ اس بات سے دل تنگ ہو کر تمہارے پاس آ جائیں کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے ضرور لڑتے لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر بالادستی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ دو قسم کے منافقین کو اللہ نے اس حکم قتل سے مستثنٰی قرار دیا ہے۔

یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ : وہ منافق، جو ایسی قوم سے جا ملتے ہیں جس کے اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہے۔

ii۔ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ: وہ غیر جانبدار منافق، جو نہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں، بلکہ وہ امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان دو صورتوں میں منافقین کا قتل جائز نہ ہو گا۔

۲۔ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ : اگر اللہ چاہتا تو اس غیر جانبدار قوم کو بھی تم پر مسلط کر دیتا لیکن اللہ نے ان کو تم سے لڑنے نہیں دیا۔

۳۔ فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ: اگر وہ تم سے الگ رہیں، تم سے جنگ نہ کریں اور صلح کا پیغام دیں تو اللہ نے تم کو ان پر بالا دستی نہیں دی ہے۔ یعنی جب کافر تم سے لڑنا نہیں چاہتے تو تم کو ان سے لڑنے کا حق نہیں ہے۔ آیت کے اس جملے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے کس قسم کی جنگ لڑی ہے۔ یعنی اسلام سے جنگ نہ کرنے والوں سے جنگ نہیں لڑی، صرف دفاعی جنگ لڑی ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلام امن کے ساتھ رہنے والے کافر اور منافقین کو امن دیتا ہے۔


آیت 90