آیت 88
 

فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا ؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو؟ اور اللہ نے ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں اوندھا کر دیا ہے، کیا تم لوگ اللہ کے گمراہ کردہ کو ہدایت دینا چاہتے ہو؟ حالانکہ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پاؤ گے۔

تشریح کلمات

ارکس:

( ر ک س ) کسی چیز کو اس کے سر پر الٹا کر دینا۔ کسی مصیبت سے رہائی کے بعد دوبارہ اس میں پھنس جانا۔

تفسیر آیات

۱۔ فَمَا لَکُمۡ: یہاں سے آگے منافقین کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور ربط آیت اس طرح ہے کہ جب اچھی بات کی مدد اور سفارش کرنے والے کو نیکی میں حصہ اور بری بات کی سفارش کرنے والے کو گناہ میں حصہ مل جاتا ہے تو پھر تم منافقین کے بارے میں دو گروہ کیوں ہو گئے ہو۔

۲۔ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ: ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ کفر و ضلالت کی اتھاہ گہرائی میں اوندھا کر دیا۔ جب اللہ نہیں چاہتا تو تم کیسے ان کی ہدایت کر سکتے ہو۔

شان نزول: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

کچھ لوگ مکہ سے مدینہ آئے اور یہ ظاہر کیا کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ پھر مکہ واپس چلے گئے، کیونکہ انہیں مدینہ راس نہ آیا۔ پھرمشرکین کا سامان لے کر یمامہ چلے گئے تو مسلمانوں نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ آپس میں اختلاف ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا یہ لوگ مسلمان ہیں، جب کہ کچھ لوگوں نے کہا یہ لوگ مشرکین ہیں۔ اس اختلاف پر یہ آیت نازل ہوئی۔(مجمع البیان )


آیت 88