آیات 86 - 87
 

وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا﴿٪۸۷﴾

۸۷۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تم سب کو بروز قیامت جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ضرور جمع کرے گا اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟

تشریح کلمات

تحیۃ:

( ح ی ی ) حیاۃ کا مصدر ہے ۔ اس کے معنی کسی کو حیاک اللّٰہ کہنے کے ہیں۔ یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے۔ کیونکہ تحیۃ حیات سے مشتق ہے، جو دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ (راغب)

تفسیر آیات

ربط آیات اس طرح بنتا ہے کہ سلسلۂ کلام جہاد کے بارے میں ہے اور مسلمان ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اور کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو مبلغ اور داعی کی حیثیت سے ایک اخلاق اور شائستگی کا درس دیا جا رہا ہے کہ اگر کو ئی تمہیں سلام و تحیت پیش کرے تو بد اخلاقی کے ساتھ پیش نہ آؤ، بلکہ اس سلام وتحیۃ کا بہتر شائستگی کے ساتھ جواب دو:

فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ۔۔۔ ( ۴۳ زخرف: ۸۹)

پس ان سے درگزر کیجیے اور سلام کہدیجیے۔

تحیۃ و سلام کی رسم تو ہر قوم و ملت میں موجود ہے، لیکن دیگر اقوام میں سلام کا مفہوم یہ ہے کہ ایک حقیر شخص کسی کی بڑائی کے سامنے جھک جائے اور اس کی تعظیم کرے۔ لہٰذا ان اقوام میں کم درجہ رکھنے والوں پر فرض بنتا ہے کہ وہ بڑا درجہ رکھنے والوں کو سلام کریں اور یہی لوگ سلام میں پہل کریں۔

اسلام نے تحیۃ و تسلیم کے آداب میں اس قسم کی تمام تفریق کو مٹا کر اسے امن و سلامتی، صلح و آشتی اورمساوات و مؤاسات کا شعار قرار دیا۔ مثلاً کسی گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کے بلا تفریق درجات آداب بتائے:

فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ۔۔۔۔ (۲۴ نور : ۶۱)

اور جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحیت کے طور پر۔

خود سرورکائنات کے لیے یہ دستور ملا:

وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۔۔۔۔ (۶ انعام :۵۴)

اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آ جائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم ۔۔۔۔

چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ سلام کرنے میں رسالتمآب (ص) پر کوئی سبقت نہیں لے سکتا تھا۔

اس آیت میں آداب سلام یہ بتایا ہے کہ اگر کوئی سلام کرے تو جواب سلام بہتر انداز میں دو۔ مثلاً سلام کرنے والا سلام علیکم کہدے تو جواب میں وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہو اور انہی الفاظ میں جواب دینا تو واجب ہے ۔

سلام کرنا مستحب ہے۔ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ جب کہ بہتر انداز میں جواب دینا مستحسن ہے۔ کسی نے اگر حالت نماز میں سلام کیا تو بھی جواب سلام واجب ہے۔ البتہ اس صورت میں ایک ایسی آیت پڑھے جس میں لفظ سلام موجود ہو۔ مثلاً سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ ۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۷۳۔ تم پر سلام ہو، تم خوب رہے۔) اگر کوئی نماز میں مشغول ہو، اس کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔

احادیث

رسول اللہ (ص) سے روایت ہے:

السَّلَامُ تَطَوُّعٌ وَ الرَّدُّ فَرِیضَۃٌ ۔ (اصول الکافی ۲:۶۴۴)

سلام کرنا مستحب ہے اور جواب واجب ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

یُسَلِّمُ الصَّغِیرُ عَلَی الْکَبِیرِ وَ الْمَارُّ عَلَی الْقَاعِدِ، وَ الْقَلِیلُ عَلَی الْکَثِیرِ ۔ (اصول الکافی ۲:۶۴۶)

چھوٹے بڑوں کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔

دوسری روایت میں فرمایا:

یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِیِ وَ الْمَاشِی عَلَی الْقَاعِدِ وَ اِذَا لَقِیَتْ جَمَاعَۃٌ جََمَاعَۃً سَلَّمَ الْاَقَلَُّ عَلَی الْاَکْثَرِ وَ اِذَا لِقِیَ وَاحِدٌ جَمَاعَۃً سَلَّمَ الْوَاحِدُ عَلَی الْجَمَاعَۃِ ۔ (اصول الکافی ۲:۶۴۷)

سوار پیدل کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اگر ایک جماعت دوسری جماعت سے ملاقات کرے تو تھوڑے زیادہ کو اور ایک شخص جماعت کو سلام کرے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک اور روایت میں آیا ہے:

لِلْمُسْلِمِ عَلَی اَخِیہِ مِنَ الْحَقِّ اَنْ یُسَلِّمَ عَلَیْہِ اِذَا لَقِیَہُ وَ یَعُودَہُ اِذَا مَرِضَ وَ یَنْصَحَ لَہُ اِذَا غَابَ وَ یُسَمِّتَہُ اِذَا عَطَسَ یَقُولَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رِبِّ الْعَالَمِینَ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَ یَقُولَ لَہُ یَرْحَمُکَ ﷲ ۔۔۔۔ (اصول الکافی ۲:۶۵۳ باب العطاس و التسمیت)

مسلمان کے لیے اپنے بھائی کے ذمے حق عائد ہوتا کہ وہ ملاقات کے وقت اس پر سلام کرے، بیماری کی صورت میں عیادت کرے، غیر حاضری میں بھی مخلص رہے، جب چھینک آئے تو اس کو دعا دے (خود چھینکنے والا) الحمد اللہ رب العالمین کہے اور دوسرا یرحمک اللہ کہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ یغفرک اللہ کہدے۔

اہم نکات

۱۔ سلام یعنی امن و سلامتی کی دعا دینا اسلامی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔

۲۔ سلام کرنا مستحب، جواب سلام واجب ہے۔


آیات 86 - 87