آیت 65
 

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ (اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ (اسے) بخوشی تسلیم کریں۔

تشریح کلمات

شَجَرَ:

( ش ج ر ) تنازعات۔ الجھنا۔ درخت کو شجر اس لیے کہا جاتاہے کہ اس کی ٹہنیاں باہم الجھی ہوئی ہوتی ہیں۔

حَکَم:

( ح ک م ) فیصلہ سنانے والا۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَا وَ رَبِّکَ: ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ اور اس کے رسول (ص) کے فیصلے کو انسان اپنی خواہشات پر مقدم سمجھے گا اور ہر اختلاف میں رسول (ص) کو حَکَم اور منصف تسلیم کرے گا۔ بصورت دیگر اللہ اپنی ذات کی قسم کھا کر نہایت تاکیدی الفاظ میں فرماتا ہے کہ ایسا شخص مومن نہیں ہے۔

تنازعات کی صورت میں اس آیت میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے:

۱۔ باہمی تنازعات میں رسول (ص) کو حَکَم بنایا جائے۔ یہ ایمان ظاہری ہے۔

۲۔ رسول (ص) کے فیصلے کو دل سے قبول کیا جائے اور کوئی رنجش نہ آئے۔ یہ ایمان باطنی ہے۔

۲۔ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ: اس آیت میں ایمان کو ان دوباتوں سے مشروط کیا ہے: اللہ اور رسول (ص) کے حکم کو بالا دست قانون کے طور پر عملاً تسلیم کیا جائے اور قلباً اس فیصلے پر اطمینان قلب حاصل ہو اور کوئی رنجش باقی نہ رہے۔

جیسا کہ د وسری جگہ ارشا د ہوا:

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿﴾ (۳۳ احزاب : ۳۶)

۳۶۔ اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔

ان دو آیات میں ان لوگوں کی صریح رد موجود ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے ساتھ اجتہادی اختلاف ہو سکتا ہے۔

سلسلہ کلام اگرچہ منافقین کے بارے میں ہے کہ وہ بظاہر ایمان کا اظہارکرتے ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جاتے ہیں یا رسول (ص) کے فیصلے کو دل سے قبول نہیں کرتے۔ تاہم اس آیت کی عمومیت میں سب لوگ شامل ہیں اور صرف حیات رسول (ص) ہی میں انہیں حَکَم بنانا نہیں بلکہ حیات رسولؐ کے بعد ان کی سنت اور سنت کے محافظین کو حَکَم بنانا بھی ایمان کی علامت ہے۔

اہم نکات

۱۔ یہ آیت ان مدعیان اسلام و ایمان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو اپنے فیصلوں کو غیر شرعی عدالتوں میں لے جاتے ہیں ۔


آیت 65