آیت 64
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا﴿۶۴﴾

۶۴۔اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا: آیت کی ابتداء میں ایک کلیہ بیان فرمایا کہ اللہ نے جو رسول بھی بھیجا ہے، وہ اس لیے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ لہٰذا رسول پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ اطاعت ہے۔ اللہ نے رسولوں کو اس لیے نہیں بھیجا کہ لوگ ان کے نام کو تقدس دیں، تعویز بنا کر گلے میں لٹکائیں اور بظاہر عشق رسول(ص) کا اظہار کریں اور عملی زندگی میں سیرتِ رسول (ص) کا کوئی دخل نہ ہو۔

۲۔ بِاِذۡنِ اللّٰہِ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اطاعت کا سلسلہ بالآخر اللہ کی ذات پر منتہی ہوتا ہے۔

۳۔ جَآءُوۡکَ: بارگاہ رسالت میں حاضر ہونا اور اسے اپنا وسیلہ اور واسطہ بنانا بارگاہ الٰہی میں اثر رکھتا ہے اور یہ عمل شرک نہیں ہے، بلکہ آیت کی رو سے یہ ایک مستحسن عمل ہے۔ اس طرح قبر رسول (ص) پر حاضری دینا بھی اسی حکم میں ہے۔

تفسیر قرطبی میں اسی آیت کے ذیل میں آیا ہے: ابو صادق نے حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے: رسول اللہ (ص) کی تدفین کے تین دن بعد ایک عرب صحرا نشین آیا اور اس نے اپنے آپ کو قبر رسول پر گرا دیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ جو بھی بات کرتے ہم سن لیتے اورآپؐ اللہ سے سمجھ لیتے اور آپ پر یہ آیت نازل کی: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ اور میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور آپؐ کے پاس آیا ہوں، آپ میرے لیے استغفار کریں۔ چنانچہ قبر سے ندا آئی: تیری مغفرت ہو گئی۔

نیز تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کی ذیل میں آیا ہے۔ شیخ ابو منصور الصباغ اپنی کتاب الشامل میں العتبی کا یہ مشہور واقعہ بیان کرتے ہیں۔ عتبی کہتے ہیں: میں قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا، ایک عرب صحرائی آیا اور کہا: السلام علیک یا رسول اللّٰہ میں نے اللہ کا یہ کلام سنا ہے: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ ۔۔ میں آپؐ کے پاس استغفار کے لیے آیا ہوں اور اپنے رب کے پاس آپؐ کو شفیع بناتا ہوں۔ پھر یہ شعر کہا:

نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ

فیہ العٖفاف و فیہ الجود والکرم ۔

میری جان نثار ہو اس قبر پر جس میں آپؐ رہتے ہیں، جس میں عفو ہے جود و کرم ہے۔

اعرابی چلا گیا۔ میری آنکھ لگ گئی خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا ہوں، فرمایا:اے عتبی! اس اعرابی کے پاس جاؤ اور اسے بشارت دو، اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے۔

۴۔ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ: رسولؐ بھی ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس سے رسول خدا (ص) کی شفاعت اور رسالت کے عظیم منصب اور عند اللہ ان کے احترام کا اظہار ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہادیان برحق صرف اس لیے آتے ہیں کہ جو دستور حیات ان کے ساتھ ہے، اس کی اطاعت کی جائے۔

۲۔ وفات کے بعد بھی اللہ تک پہنچنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح وسیلہ ہیں جس طرح حیات میں تھے۔


آیت 64