آیات 51 - 56
 

ثُمَّ اِنَّکُمۡ اَیُّہَا الضَّآلُّوۡنَ الۡمُکَذِّبُوۡنَ ﴿ۙ۵۱﴾

۵۱۔ پھر یقینا تم اے گمراہو! تکذیب کرنے والو!

لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾

۵۲۔ زقوم کے درخت میں سے کھانے والے ہو۔

فَمَالِـُٔوۡنَ مِنۡہَا الۡبُطُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾

۵۳۔ پھر اس سے پیٹ بھرنے والے ہو۔

فَشٰرِبُوۡنَ عَلَیۡہِ مِنَ الۡحَمِیۡمِ ﴿ۚ۵۴﴾

۵۴۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پینے والے ہو۔

فَشٰرِبُوۡنَ شُرۡبَ الۡہِیۡمِ ﴿ؕ۵۵﴾

۵۵۔ پھر وہ بھی اس طرح پینے والے ہو جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں۔

ہٰذَا نُزُلُہُمۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۵۶﴾

۵۶۔جزا کے دن یہ ان کی ضیافت ہو گی۔

تشریح کلمات

زَقُّوۡمٍ:

اس کی سورہ صافات آیت ۱۲ میں تشریح ہو گئی ہے۔

الۡہِیۡمِ:

شدید پیاس۔ الھیام ایک بیماری کا نام جو اُنٹوں کو لاحق ہوتی ہے اور پیاس لگتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ثُمَّ اِنَّکُمۡ: خطاب کفار قریش اور ان کے ہمنواؤں سے ہے۔

الضَّآلُّوۡنَ: انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے سے پہلے یہ لوگ گمراہی میں تھے اور انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے کے بعد یہی لوگ الۡمُکَذِّبُوۡنَ ہو گئے۔ رسالت اور قیامت کی تکذیب کرنے والے۔

۲۔ لَاٰکِلُوۡنَ: جہنم میں انہیں بھوک کا عذاب دیا جائے گا اور کھانے کی شدید خواہش ہو گی۔

زَقُّوۡمٍ کے درخت میں سے کھائیں گے۔ زقوم کا درخت سدر کے درخت کے مقابلے میں ہے۔ اس کے بارے میں سورہ دخان آیت ۴۳ تا ۴۵میں آیا ہے:

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِ طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ کَالۡمُہۡلِ ۚۛ یَغۡلِیۡ فِی الۡبُطُوۡنِ

بے شک زقوم کا درخت، گناہگار کا کھانا ہے، پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہے جو شکموں میں کھولتا ہے۔

وہ بھوک کے عذاب سے نجات کے لیے زقوم کے درخت سے کھائیں گے تو عذاب میں اضافہ ہو جائے گا۔

۳۔ فَمَالِـُٔوۡنَ : پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کی چیز سے اپنے پیٹ بھر لیں گے تو اس سے بھوک میں افاقے کی جگہ پیاس لگے گی۔

۴۔ فَشٰرِبُوۡنَ عَلَیۡہِ مِنَ الۡحَمِیۡمِ: اس پر کھولتا ہوا پانی پی لیں گے اور اس کھولتے ہوئے پانی کو بھی اتنی تیزی سے پی لیں گے جیسے ایک شدید پیاسا پیتا ہے۔ یعنی اس عذاب بالائے عذاب کو شد و مد کے ساتھ اختیار کریں گے۔ یہ ایک انتہائی اضطراب اور بے چارگی کے عالم کا منظر پیش ہو رہا ہے جس میں مبتلا شخص اس سے نکلنے کی کوشش میں مزید مبتلائے بلا ہو جاتا ہے۔

۵۔ ہٰذَا نُزُلُہُمۡ: یہ ہے ان کافروں کی ضیافت اور ان کو ملنے والی پذیرائی۔ اس میں کافروں کے لیے ایک قسم کا استہزاء ہے جس طرح فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ۔ (۳ آل عمران: ۲۱) ’’انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں‘‘ اور ذُقۡ ۚۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ۔ (۴۴ دخان: ۴۹) ’’چکھ، بے شک تو (جہنم کی ضیافت میں) بڑی عزت والا اکرام والا ہے‘‘ میں طنز و استہزاء کا لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔


آیات 51 - 56