آیت 46
 

وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ اور گناہ عظیم پر اصرار کرتے تھے،

تشریح کلمات

الۡحِنۡثِ:

گناہ کو کہتے ہیں۔ دراصل یہ لفظ قسم توڑنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ۔۔۔۔ (۳۸ صٓ: ۴۴)

(ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں ایک گچھا تھام لیں اور اسی سے ماریں اور قسم نہ توڑیں۔

لَا تَحۡنَثۡ یعنی قسم نہ توڑ۔ بعض اہل علم نے حنث کے یہ معنی کیے ہیں: قیامت کے انکار پر قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ یہ اس لفظ کے لغوی معنی اور شرعی استعمال کے اعتبار سے بہتر تشریح ہے۔

تفسیر آیات

نازپروری اور دولت کے نشے نے انہیں انکار آخرت جیسے عظیم گناہ پر ڈٹ جانے پرآمادہ کیا ہے۔ اصرارکسی گناہ کو جاری رکھنے اور اس سے باز نہ آنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:

لَا صَغِیرَۃَ مَعَ الْاِصْرَارِ وَ لَا کَبِیرَۃَ مَعَ الْاِسْتَغْفَارِ۔ (الکافی۲: ۲۸۸)

اصرار کے ساتھ گناہ، صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار کے ساتھ گناہ، کبیرہ نہیں رہتا۔


آیت 46