آیت 32
 

اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ؕ وَ رَحۡمَتُ رَبِّکَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ کیا آپ کے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ جب کہ دنیاوی زندگی کی معیشت کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم ہی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے اور آپ کے رب کی رحمت اس چیز سے بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ: نبوت جیسی آپ کے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرنے لگے ہیں کہ نبوت کسے ملنی چاہیے۔ انہیں الٰہی منصب بانٹنے کا حق کس نے دیا؟ یہ لوگ کہاں اور الٰہی منصب کے لیے افراد کا انتخاب کہاں!!

اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۲۴)

اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔

۲۔ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ: ہم نے اس سے کمتر چیز یعنی ان کی معیشت ان کے ہاتھ میں نہیں دی۔ وہ معیشت جو ہر مومن و کافر اور منافق کو ملنی ہے، ہر جابر اور سرکش کو بھی ملنی ہے، ان کے اختیار میں نہیں رکھی تو نبوت جیسے عظیم الٰہی منصب کا اختیار انہیں دیں گے؟ روزی جو ہر اچھے برے کو ہم نے دینی ہے، اس کی تقسیم میں جو مصلحتیں ہیں وہ ان مصلحتوں کو نہیں جانتے تو کیا یہ لوگ ان قدروں کو پہچان سکیں گے جن کے تحت الٰہی منصب تقسیم کرنا ہے؟

۳۔ وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ: اور ہم نے ہی بعض انسانوں کی لیاقت اور استعداد میں فرق رکھا ہے جس کی وجہ سے مادی وسائل کے حصول میں فرق آتا ہے۔

اس فرق میں یہ مصلحت کارفرما ہے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آتے ہیں یعنی استعداد میں اختلاف آنے سے ہنر اور فنون میں اختلاف آتا۔ ترکھان انجینئر کے کام آتے ہیں اور مستری ڈاکٹر کے کام آتے ہیں۔ ہر فن اور ہنر دوسروں کے لیے قابل تسخیر و استفادہ ہو جاتا ہے۔

۴۔ وَ رَحۡمَتُ رَبِّکَ: جب کہ اللہ کی رحمت دنیاوی مال دولت سے کہیں بہترہے۔ دنیا کا مال قابل زوال ہے جب کہ اللہ کی رحمت یعنی ثواب ابدی اور لازوال ہے۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی منصب بانٹنے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔

۲۔ اللہ نے روزی بانٹنے کا حق غیر اللہ کو نہیں دیا جو ہر مومن و کافر کو ملتی ہے۔


آیت 32