آیات 149 - 150
 

فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَلِرَبِّکَ الۡبَنَاتُ وَ لَہُمُ الۡبَنُوۡنَ﴿۱۴۹﴾ۙ

۱۴۹۔ پس آپ ان سے پوچھیں: کیا تمہارے رب کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لیے بیٹے ہوں؟

اَمۡ خَلَقۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّ ہُمۡ شٰہِدُوۡنَ﴿۱۵۰﴾

۱۵۰۔ کیا ہم نے فرشتوں کو جب مؤنث بنایا تو وہ دیکھ رہے تھے ؟

تفسیر آیات

۱۔ اے رسول ان سے سوال کریں کہ ان لوگوں نے آپ کے رب کے حصے بیٹیاں رکھی ہیں اور خود اپنے لیے بیٹے۔ بیٹیاں اور بیٹوں میں یہ لوگ خود تفریق کے قائل ہیں:

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿۵۸﴾ (۴۳ زخرف: ۱۷)

حالانکہ جب ان میں سے کسی ایک کو بھی اس (بیٹی) کا مژدہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدائے رحمن کی طرف منسوب کی تھی تو اندر ہی اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

اپنی ذہنیت کے مطابق اللہ کے لیے غیر مرغوب بیٹیاں رکھ دیں اور اپنے لیے مرغوب بیٹے:

تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۲﴾ (۵۳ نجم۔۲۲)

یہ تو پھر غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

مشرکین فرشتوں کو بیٹیاں سمجھتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان بیٹیوں کو اللہ نے اپنا لیا، برگزیدہ کیا ہے ۔ مجمع البیان کا موقف یہی ہے:

علی وجہ الاصطفا لا علی وجہ الولادۃ۔

برگزیدہ کر کے، نہ ولادت سے۔

۲۔ اَمۡ خَلَقۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃَ: فرشتوں کے مؤنث ہو نے پر ان کے پاس کیا شواہد ہیں؟ فرماتا ہے کہ جب ہم فرشتے خلق کر رہے تھے، کیا تم اس وقت حاضر تھے؟


آیات 149 - 150