آیت 141
 

فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِیۡنَ﴿۱۴۱﴾ۚ

۱۴۱۔ پھر قرعہ ڈالا تو وہ مات کھانے والوں میں سے ہوئے۔

تشریح کلمات

فَسَاہَمَ:

( س ھ م ) قرعہ اندازی کے تیر کو سَہْمٌ کہا جاتا ہے۔

المدحض:

( د ح ض ) اصل میں دَحَضَ پاؤں پھسلنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَسَاہَمَ: سمندر میں طلاطم آیا۔ غرق کا خطرہ لاحق ہوا تو قرعہ اندازی ہوئی کہ جس کا نام نکل آئے اسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔ یہودی تاریخ میں آیا ہے: لوگ آپس میں کہنے لگے دیکھتے ہیں اس طلاطم کا سبب کون سا شخص ہے، قرعہ اندازی کے ذریعے معلوم کرتے ہیں تو یونس کا نام نکل آیا۔

قرعہ اندازی قدیم قوموں میں رائج تھی۔ جب کسی کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد موجود ہوتے تو قرعہ اندازی کے ذریعے اس مشکل کو حل کیا کرتے تھے۔

اس قرعہ اندازی سے حکم شرعی کا استنباط نہیں ہو سکتا چونکہ جن لوگوں نے یہ عمل کیا ہے ان کا عمل حجت نہیں ہے۔ اگر حضرت یونس علیہ السلام کا قبول کرنا حجت قرار دیا جاتا ہے تو بھی ہماری شریعت میں ثابت نہیں ہے۔ البتہ ہماری شریعت میں چند ایک شرائط کے تحت قرعہ اندازی مشروع ہے۔

حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے بارے میں قرعہ اندازی سے کام لیا گیا تھا: اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ۔۔۔۔ ( ۳ آل عمران: ۴۴)

۲ فَکَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِیۡنَ: المدحض۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکل آتا ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ تین مرتبہ قرعہ اندازی ہوئی تینوں مرتبہ حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکل آیا۔ بالآخر انہیں سمندر میں پھینک دیا گیا۔


آیت 141