آیت 43
 

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّصُدَّکُمۡ عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُکُمۡ ۚ وَ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکٌ مُّفۡتَرًی ؕ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں: یہ شخص تو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور کہتے ہیں: یہ (قرآن) تو محض ایک خود ساختہ جھوٹ ہے اور کفار (کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ان) کے پاس جب بھی حق آیا تو کہنے لگے: بے شک یہ تو ایک کھلا جادو ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ: مشرکین کے سرداروں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جو مہم چلائی وہ قومی روایات کو پامال کرنے کی بنا پر تھی چونکہ اللہ کی طرف سے جو آیات اور دلائل پیش ہوئے تھے وہ بینات، نہایت واضح تھے۔ ان کے مقابلے میں آبائی تقلید اور قومی روایات کو اٹھانے کے علاوہ کوئی اور حربہ ان کے پاس موجود نہ تھا۔

۲۔ وَ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکٌ مُّفۡتَرًی: وہ ان آیات بینات کو اِفۡکٌ ، جھوٹ قرار دیتے تھے جب کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ مفتری اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کو کہتے ہیں۔ مشرکین اس بات کا بھی اعتراف کرتے تھے: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کسی انسان پر افتراء نہیں باندھا۔

۳۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کفار کا حق کے مقابلے میں ہمیشہ یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ اسے کھلا جادو کہتے رہے ہیں۔ جادو کہنے میں ایک ضمنی اعتراف بھی ہے کہ جو ان رسولوں علیہم السلام نے پیش کیا وہ غیر معمولی امر ہے جو دلوں میں دگرگونی اور انسانی وجدان میں تزلزل پیدا کرتا ہے۔ اسے جھوٹ کہنا کافی نہیں ہے۔


آیت 43