آیت 54
 

اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ انہیں ان کے صبر کے صلے میں دو بار اجر دیا جائے گا اور یہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعے دور کر دیتے ہیں اور ہم نے جو روزی انہیں دی ہے اس سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ: ایسے اہل کتاب کو جو دین اسلام کے ایک لمحہ کے لیے بھی منکر نہیں رہے اور اپنے سابقہ دین پر بھی قائم رہے دو اجر و ثواب ملیں گے۔ بِمَا صَبَرُوۡا یہ دو اجر ان کے صبر و تحمل کے صلے میں ملیں گے۔ پرانے نظریے اور مذہب کو چھوڑ کر حق کی خاطر جدید مذہب کو اختیار کرنا بہت بڑا صبر و حوصلہ مانگتا ہے۔ مذہب بدلنے کو لوگ برا سمجھتے ہیں۔ تمسخر و اہانت کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

۲۔ وَ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ: وہ لوگ برائی کو نیکی سے دور کرتے ہیں۔ وہ مذہب بدلنے پر پیش آنے والی بدکلامیوں، طعنوں اور ملامتوں کا جواب بردباری، خوش اخلاقی اور خوش کلامی سے دیتے ہیں۔ شاید یہ جملہ صبر و استقلال کے ایک اہم مصداق کا ذکر ہے جو مذہب بدلنے والوں کو پیش آتا ہے۔

۳۔ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ: صبر، حوصلہ اور جرأت کے مصادیق میں سے ایک اہم مصداق انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ پہلے اس بات کا ذکر تھا کہ وہ اپنی خواہشات کا مقابلہ کر کے مذہب بدلتے تھے۔ اس جملے میں فرمایا: اسی پاک جذبہ کے تحت وہ مال کی خواہش کا بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ دونوں کا تعلق اعلیٰ و ارفع اقدار سے ہے۔

اہم نکات

۱۔ برائی کا مقابلہ نیکی سے کرنا ایک جرأت مندانہ قدم ہے۔

۲۔ حق کی خاطر مذہب بدلنا بھی جرات مندانہ قدم ہے۔


آیت 54