آیت 41
 

وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

تفسیر آیات

۱۔ یہاں ایک سوال پیداہوتا ہے کہ خود اللہ نے انہیں آتش کی طرف بلانے والے بنا دیا تو ان کا کیا قصور ہے۔ اس سے مسلک جبر پر استدلال کیا جاتا ہے۔

جواب یہ ہے کہ جب کسی ناقابل ہدایت انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو قرآن اس کے لیے یہ تعبیر اختیار فرماتا ہے: ہم نے اسے گمراہ کیا:

وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً ۚ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۔۔۔۔۔ (۵ مائدۃ: ۱۳)

اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں۔

وَ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً ۔۔۔ (انعام: ۲۵)

لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔

جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجۡرِمِیۡہَا لِیَمۡکُرُوۡا فِیۡہَا ۔۔۔۔۔ (انعام: ۱۲۳)

ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے بڑے مجرموں کو پیدا کیا۔۔۔۔

یہاں بھی یہی صورت ہے کہ فرعون لوگوں کو گمراہ کر کے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے رہنما بنا ہوا ہے۔ اللہ نے رسولوں اور معجزات کے ذریعے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ جب وہ نہیں مانا تو اللہ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جا رہا تھا اور اللہ نے اسے جہنم کی طرف رہنمائی کرنے کی حالت میں چھوڑ دیا۔ اس چھوڑنے کو جَعَلۡنَا فرمایا ہے۔

۲۔ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ لَا یُنۡصَرُوۡنَ: قیامت کے دن ان کی شفاعت کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور وہ ہماری گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔

اہم نکات

۱۔ سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ خدائے مہربان کسی سے ہاتھ اٹھا لے۔


آیت 41