آیات 170 - 173
 

فَنَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۷۰﴾ۙ

۱۷۰۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے تمام اہل خانہ کو نجات دی۔

اِلَّا عَجُوۡزًا فِی الۡغٰبِرِیۡنَ﴿۱۷۱﴾ۚ

۱۷۱۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئی۔

ثُمَّ دَمَّرۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ﴿۱۷۲﴾ۚ

۱۷۲۔ پھر ہم نے باقی سب کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔ اور ان پر ہم نے بارش برسائی، پس تنبیہ شدہ لوگوں پر یہ بہت بری بارش تھی۔

تفسیر آیات

۱۔ چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے خانوادے کے افراد کو اللہ نے بچا لیا چونکہ یہی ایک گھر مسلمان تھا لہٰذا وَ اَہۡلَہٗۤ اہل بیت میں دوسرے مؤمنین کو شامل سمجھنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۲۔ اِلَّا عَجُوۡزًا: اس عورت سے مراد خود حضرت لوط علیہ السلام کی زوجہ ہے۔ چنانچہ سورۃ الاعراف، النمل اور الحجر میں اس کی صراحت موجود ہے کہ یہ عورت ایک نبی کی زوجہ ہونے کے باوجود بدکار قوم کی حامی تھی۔

۳۔ ثُمَّ دَمَّرۡنَا: تدمیر تباہ کر دینے کے معنوں میں ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو بچانے کے بعد باقی پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔

۴۔ وَ اَمۡطَرۡنَا: اس قوم پر بارش برسائی گئی۔ بارش سے مراد پانی کی نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے جیسا کہ سورۃ الحجر آیت ۷۴ میں فرمایا:

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ

اور ہم نے ان پر کنکریلے پتھر برسائے۔

چنانچہ ایک آتش فشانی دھماکے سے ان پتھروں کی بارش ہوئی ہو گی۔ فاخذتہم الصحیۃ مشرقین سورج نکلتے وقت انہیں خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔ یہ آتش فشانی کے دھماکے کی آواز ہو سکتی ہے۔

طبقات الارضی ماہرین کے مطابق اردن کے بحر مردار میں بہت سی بستیاں غرق ہیں۔ اس بحیرہ کے قرب و جوار میں بعض قلعوں کی بقایا کا پتہ چلا ہے اور اس کے ساتھ وہ مذبحہ بھی ہے جہاں قربانیاں پیش کی جاتی تھیں۔ ( ظلال القرآن )

ماہرین کا خیال ہے کہ وادی سدیم بحر مردار میں غرق ہے جس میں قوم لوط کی بڑی بڑی بستیاں آباد تھیں۔ ایک زلزلے میں یہ وادی دھنس گئی۔ اس پر بحر مردار کا پانی جمع ہو گیا۔


آیات 170 - 173