آیات 276 - 277
 

یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ﴿۲۷۶﴾

۲۷۶۔ اللہ سود کو نا پائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۲۷۷﴾

۲۷۷۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل بجا لائیں نیز نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

تفسیر آیات

اگر پورے انسانی معاشرے پر سود اور صدقات کے اثرات کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ محدود نگاہ رکھنے، خصوصاً اغیار کی طفیلی سوچ رکھنے والوں کے خیال کے خلاف، ترقی اور پیشرفت کا راز خیرات میں مضمر ہے، جب کہ سودی نظام کا نتیجہ فقر و تنگدستی ہے۔

سود اور خیرات و صدقات دونوں کا تعلق محتاج اور نادارطبقے سے ہے، جو دنیا کی کل آبادی کی واضح اکثریت پرمشتمل ہے۔ یعنی یہ تیسری دنیا کا مسئلہ ہے جسے سود کے ذریعے غربت اور افلاس میں محبوس رکھا گیا ہے۔ ان غریب ملکوں کی ساری طاقت سود کی ادائیگی پر صرف ہوتی ہے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک کی پوری طاقت صرف ہونے کے باوجود سودکی رقم ادا نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ سود کی ادائیگی کے لیے مزید سودی قرضے اٹھائے جا رہے ہیں اور ملک کی بے جان معیشت پرمزید ضرب لگائی جا رہی ہے۔ سودی نظام سے سرمایہ داروں کے خلاف غریبوں میں نفرت، عداوت اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے، ان مٹھی بھر استحصالیوں کے خلاف جذبہ انتقام ابھرتا ہے۔ اس طرح فساد اور اضطراب کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ جب کہ صدقہ و خیرات رحم، ہمدردی، محبت، بھائی چارے، ہم آہنگی اور اتحاد و یگانگت کی ایک پرامن فضا وجود میں لاتے ہیں، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور دولت و ثروت کی منصفانہ تقسیم سے ہر شخص مطمئن ہوتا ہے۔ اس طرح باہمی تعاون بڑھتا ہے اور معاشرہ اپنی ضرورت خود پیدا کرتا ہے نیز لوگ اپنے ملک کی دولت سے خود استفادہ کرتے ہیں۔

اگر لوگ سود جیسے غیر اسلامی و غیر انسانی ظالمانہ نظام کو ترک کرتے تو سرمائے کا ارتکاز چند لوگوں کے ہاتھوں میں نہ ہوتا،بلکہ دولت کی عادلانہ تقسیم ہو جاتی، جس سے ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور نعمتیں وافر ہو جاتیں۔ چنانچہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا :

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ۔۔۔۔ {۵ مائدہ : ۶۶}

اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے۔

اہم نکات

۱۔ اسلام کا اقتصادی نظام، پیداوار میں اضافے اور امن و خوشحالی کا ضامن ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔۔۔


آیات 276 - 277