آیت 275
 

اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۷۵﴾

۲۷۵۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

تشریح کلمات

الرِّبٰوا:

( ر ب و ) زیادتی، اضافہ، سود۔

تَخَبَّط:

( خ ب ط ) خَبط۔ حواس باختہ، پاگل، مجنون۔

تفسیر آیات

سود کی تاریخ: عہد فراعنہ میں سود کا رواج تھا۔ البتہ اس کی کچھ حدود و قیود متعین تھیں۔ چنانچہ یوخوریوس نامی فرعون نے قانون بنایا کہ قرض کی ادائیگی میں اگرچہ تاخیر ہو جائے، تب بھی اس کا سود اصل سرمائے سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔

افریقی اور رومن حکومتوں میں قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں مقروض خود اپنے قرض دہندہ کی ملکیت میں چلا جاتا تھا، لیکن بعد میں افریقی قانون ساز سولون نے اس غیر انسانی قانون کو ختم کر دیا اور شرح سود بارہ فیصد کر دی۔ بعد میں رومن حکومتوں میں بھی یہی قانون برقرار رہا۔

دینی قوانین: آسمانی ادیان میں سود ہمیشہ حرام رہا ہے۔ چنانچہ عہد قدیم میں مذکور ہے کہ جب کسی کو قرض دو تو اس کے ساتھ قرض خواہ کا سا سلوک نہ کرو اور مال کے لیے کسی فائدے کا مطالبہ نہ کرو۔ ملاحظہ ہو عہد قدیم آیت ۲۵ فصل ۱۲ سفر خروج نیز آیت ۳۵ فصل ۲۵ سفر لادی اور انجیل لوقا آیات ۳۴۔ ۳۵ فصل۶۔

مسیحی تعلیمات میں سود کو قطعاً حرام سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ مسیحی پوپ حضرات بھی سود کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کرتے تھے، جب کہ وہ مذہبی مسائل میں تساہل برتنے کے عادی تھے۔ چنانچہ پوپ سکوبر کہتا ہے: ’’جو یہ کہتا ہے کہ سود گناہ نہیں ہے، وہ ملحد اور دین سے خارج ہے۔‘‘ پوپ بونی کہتا ہے: ’’سود خور لوگ دنیا میں ہی ہر قسم کی عزت و شرافت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ مرنے کے بعد تکفین کے بھی مستحق نہیں رہتے۔ ‘‘ ملاحظہ ہو رسالۃ الاسلام طبع قاہرہ اکتوبر ۱۹۵۱ء بحوالہ پاسکل خطاب نمبر۸ (Pascal lesprovinciales)۔

مسیحی یورپ: یورپ میں فرانسیسی انقلاب تک تو کم و بیش سود کی ممانعت کا حکم نافذ رہا، لیکن انقلاب فرانس کے بعد ۱۲، اکتوبر ۱۷۸۹ء میں ایک قانون کے ذریعے سود کو جائز قرار دے دیا گیا۔

ربا یعنی سود کی دوقسمیں ہیں:

الف۔ قرض پر سود: جسے ربا النسیۃ بھی کہتے ہیں۔ اس کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ سود وہ زائد رقم ہے جو قرض خواہ اپنے مقروض سے اصل زرکے علاوہ وصول کرتا ہے۔ علامہ سیوطی نے الجامع الصغیر میں حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان نقل کیا ہے نیز مستدرک الوسائل جلد ۱۳ صفحہ ۴۰۹ پرامام محمد باقر علیہ السلام سے حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان منقول ہے:

کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِباً ۔ {مستدرک الوسائل ۱۳: ۴۰۹۔ عوالی اللآلی ۱: ۳۰۹}

ہر وہ قرض جو کسی منفعت کے حصول کا سبب بنے رِبَا ہے۔

ب۔ معاملاتی سود: جسے ربا الفضل بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ اضافہ ہے جو کچھ مخصوص اور ہم جنس اجناس کے تبادلے پر لیا جائے۔ جیسے ایک کلو گندم ادھار دے کر بعد میں اس کے عوض سوا کلو گندم لینا۔

قرانی تعبیر کے مطابق سود خور حواس باختہ ہوتا ہے۔ اس کا ضمیرمردہ اور وہ عقل و شعورسے بے بہرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک عقلی اور فطری توازن رکھنے والا شخص خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو، اپنے فطری تقاضوں کے مطابق احسان پسند ہوتا ہے، خود بھی احسان کرتا ہے اور دوسرے احسان کرنے والوں کو بھی پسند کرتا ہے۔ اس کے دل میں ناداروں اور محتاجوں کے لیے رحم اور ہمدردی کا جذبہ موجزن رہتا ہے۔ وہ مال و دولت کماتا ضرور ہے، مگر اپنی ضرورت سے زائد مال کو دوسروں کے خون پسینے کی کمائی بٹورنے کا ذریعہ نہیں بناتا۔ جب کہ سود خور دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان کے خون پسینے کی کمائی پر ڈاکہ ڈالتا اور اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے۔ یوں دولت کے نشے میں حواس باختہ ہو کر اسے اس بات کا احساس نہیں رہتا کہ اس کی اس درندگی سے کتنے ضرورت مندوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

قرآن اپنے دستورمیں سود کو صدقے کے مقابل ذکر فرماتا ہے۔ صدقے کے پس منظر میں ایک ایثار پسند، انسانی اقدار کا مالک اور پاکیزہ نفس موجود ہوتا ہے۔ جب کہ سود کے پس پردہ ایک مفاد پرست، بدخو اور درندہ صفت انسان موجود ہوتا ہے۔ صدقہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے دوسروں کا دکھ درد بانٹنے کا نام ہے۔ جب کہ سود دوسروں کے خون پسینے میں اپنا لقمہ تر کرنے سے عبارت ہے۔

تمام اسلامی قوانین میں ایک بنیادی اصول مدنظر رکھا جاتا ہے: لاَ ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ فِی الْاِسْلَامِ ۔ {وسائل الشیعۃ ۲۶: ۱۴} یعنی اسلامی قوانین میں ضرر کا پہلو نہیں ہوا کرتا۔ اسلام کا کوئی حکم اور قانون، ضرر کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ مثلاً اسلام نے فردی ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔ یعنی انسان اپنی محنت سے جو کچھ کماتا ہے، وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ لیکن اگر اس ملکیت میں کسی اور فرد پر ضرر وارد ہوتا ہو تو اس وقت یہ حق واپس لے لیاجاتا ہے۔ انسان اپنی زمین پر درخت لگا سکتا ہے اوراس کے پھلنے پھولنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اگر اس درخت کی شاخیں کسی اور شخص کی زمین پر پھیل جائیں اور اسے نقصان پہنچائیں تو ان شاخوں پر اس کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور دوسری زمین کا مالک انہیں کاٹنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ حرمت ربا بھی اسی اصول کے تحت آتی ہے۔ انسان اپنے سرمائے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن اگر یہ استفادہ مقروض کے لیے باعث ضرر ثابت ہو تو یہ حق سلب ہو جاتا ہے۔

سود خوروں کی دلیل: اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ جب تجارت میں لگائے گئے سرمائے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے سرمائے کا منافع جائز کیوں نہیں؟ ہمارے معاصر سود خوربھی عیناً یہی دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں: قرض دہندہ جس سرمائے سے خود فائدہ اٹھا سکتا تھا، اسے وہ بطور قرض دوسرے شخص کو دیتا ہے۔ دوسرا شخص اس سرمائے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ پس اس فائدے میں سے ایک حصہ قرض دینے والے کے لیے مختص ہو جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ یعنی اگر تجارت میں خرید و فروخت کر کے منافع لینا جائز ہے تو اسی سرمائے کو قرض دے کر منافع کمانا کیوں جائز نہیں؟

اس کا جواب اولاً تو یہ ہے کہ تجارت میں خسارے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ منافع کی شرح میں کمی بیشی مدنظر ہوتی ہے، جب کہ سود میں قرض دینے والا بغیر کسی خطرے کے ایک مقررہ اور لازمی منافع کاحقدار سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگرقرض تجارت کی غرض سے ہی لیا جائے تو واضح ہے کہ تجارت میں فائدہ و ضرر دونوں کا احتمال ہوتا ہے، جب کہ سود میں قرض دینے والے کا فائدہ ہر صورت میں یقینی ہے، لیکن قرض لینے والے کے لیے خسارے کا احتمال ہی رہتا ہے۔ لہٰذا اس احتمال کے مقابلے میں یقینی منافع لینا حرام ہے۔ قرض پیداواری مقاصد کے لیے لیا جاتا ہے یا غیر پیداواری مقاصد کے لیے۔ پیداواری مقاصد میں قرض خواہ کو منافع ملتا ہے یا خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔ اس طرح اس مسئلے کی تین صورتیں بنتی ہیں۔ قرض لینے والے کو صرف ایک صورت میں منافع حاصل کرنے کاموقع ملتا ہے، جب کہ قرض دینے والا ہر صورت میں منافع حاصل کرتا ہے:

قرض

۱۔غیر پیداوری

منافع کاحکم سودی نظام میں

فقط قرض خواہ کو ملے گا۔

منافع کاحکم غیر سودی نظام میں

قرض خواہ کے لیے منافع لینا حرام ہے۔

۲۔ پیداواری باخسارہ

فقط قرض خواہ کو ملے گا

قرض خواہ کے لیے منافع لینا حرام ہے۔

۳۔ پیداواری بامنافع

قرض لینے اور دینے والے دونوں کو ملے گا

نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر منافع دونوں کوملے گا۔

سود درج ذیل اقتصادی برائیوں کا حامل ہونے کی وجہ سے بھی ممنوع ہے:

الف۔ غیرسودی نظام میں پہلے منافع جات کو یقینی بنایا جاتا ہے، پھر یہ منافع معاہدے کے تحت سرمائے اور محنت کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب کہ سودی نظام میں سرمایہ منافع دے یا نہ دے، صاحب سرمایہ کو ہر صورت میں منافع مل جاتا ہے جو کہ عدل و انصاف کے سراسر خلاف اور ایک ظالمانہ قانون ہے۔

ب۔ مندرجہ بالا چارٹ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سودی نظام کے تحت روئے زمین کے تمام پیداواری منافع جات چند افراد کی جیب میں جمع ہو جاتے ہیں، کیونکہ قرض لینے والوں کو تین صورتوں میں سے ایک صورت میں منافع ملتا ہے۔ جب کہ قرض دینے والے کو ہر صورت میں منافع حاصل ہوتا ہے۔ یہ منافع بھی زیادہ تر قرض دینے والے کو ملتا ہے اور قرض لینے والے کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ مثلاً ایک ملک تیس ارب کا سودی قرض لیتا ہے، جس میں سے چھ ارب (بیس فیصد) روپے بطور سود دینے ہوں گے۔ اس رقم میں سے دس ارب روپے غیر پیداواری امور پر خرچ ہوتے ہیں جن کا کوئی منافع نہیں ہے۔ دوسرے دس ارب سے جو کاروبار کیا جاتا ہے وہ خسارے کا شکار ہو جاتا ہے۔ تیسرے دس ارب سے کاروبار کرنے پر دو ارب روپے منافع ملتا ہے۔ چنانچہ مقروض ملک کو چار ارب روپے کا خسارہ اپنے خزانے سے ادا کرنا پڑے گا۔اس طرح ملک کی تمام پیداواری صلاحیت سرمایہ دار ملک کے مفاد میں چلی جائے گی۔

ج۔ ایک ملک کا اپنا سرمایہ دس ارب ڈالر ہے۔ جب کہ بجٹ بیس ارب ڈالر کاہے۔ لہٰذا وہ دس ارب ڈالر قرض لے گا اور اس پر دو ارب ڈالر سود دے گا۔ یعنی یہ ملک دس کی جگہ بارہ ارب ڈالر واپس کرے گا۔ اس طرح اس ملک کا اپنا سرمایہ گھٹ کر آٹھ ارب ڈالر رہ جاتا ہے۔ بعد میں اسے سود در سود کے طور پراس دو ارب ڈالر کا بھی سود دینا پڑے گا۔ آخر کار اس ملک کی پوری پیداواری صلاحیتیں اس قرض خواہ ملک کے قبضے میں چلی جائیں گی۔

د۔ صنعت کار سودی قرض لیتے ہیں، پھر سود ادا کرنے اور کچھ منافع کمانے کے لیے وہ اپنی پیداواری اشیاء کی قیمت بڑھاتے ہیں۔اس طرح اس کا بوجھ صارفین پر پڑتا ہے اور پورا معاشرہ سود کے برے اثرات سے متاثر ہوتا ہے، جب کہ نفع صرف سود خوروں کی جیب میں جاتا ہے۔

ھ۔ حکومتیں سودی قرض لے کر ادائیگی کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتی ہیں۔ اس طرح پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔

و۔ دور جاہلیت میں سود کے مفاسد اگرچہ کم نہ تھے، لیکن آج کل اس کے مفاسد اور زیادہ نمایاں ہیں۔ سودی استحصالی نظام ہی کی وجہ سے تیسری دنیا خصوصا اسلامی دنیا پر اخلاقی، اقتصادی، سیاسی، عسکری، دینی اور ثقافتی میدانوں میں درندہ صفت استعماری طاقتوں کی بالادستی قائم ہے۔ یوں زندگی کا کوئی شعبہ سود کے برے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔

سوال:

سود قرض کی رقم کا کرایہ ہے۔ اگر کرایہ لینا جائز ہے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ رقم کا کرایہ لیا جائے یا گھر کا؟

جواب:

کرائے میں گھر کی ملکیت گھر کے مالک کے پاس رہتی ہے، لہٰذا گھر کانفع نقصان مالک سے مربوط ہوتا ہے، جب کہ قرض میں قرض دینے والا قرض کی عین رقم کا مالک نہیں رہتا۔ لہٰذا اس رقم کے سود و زیاں کے اثرات اس پر مرتب نہیں ہوتے۔ ثانیاً گھر سے استفادہ یقینی ہوتا ہے۔ یہاں کسی خسارے یا کمی بیشی کا خطرہ نہیں ہوتا۔

نیز اجارے میں جب تک استفادہ ہے، کرایہ ہے۔ اگر استفادہ نہیں، کرایہ نہیں ہے۔ مثلاً ایک گھر کرایہ پر ہے تو گھر سے رہائش کا استفادہ ہو توکرایہ دیا جائے گا۔ اگر ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے یا قابل استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ نہیں ہو رہا تو کرایہ نہیں دیا جائے گا۔ جب کہ ربا میں خواہ رقم قابل استفادہ ہو یا نہ ہو، رقم کی اب ضرورت ہو یا نہ ہو، اس وقت تک سود دینا پڑے گا جب تک اصل رقم واپس نہیں ہو جاتی۔

وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ سود کی حرمت اور تجارت کی حلیت کے پیچھے درج ذیل معاشی اور اخلاقی امتیازات کارفرما ہیں:

الف: تجارت میں تاجر اپنے مال کو بازار میں پیش کرتا ہے اور منافع کی شرح بازار کے اتار چڑھاؤ کے مطابق مقرر کرتا ہے اور بازار کا یہ اتارچڑھاؤ کبھی منافع دیتا ہے اور کبھی دیوالیہ کر دیتا ہے۔ اس لیے تاجر اور گاہک دونوں فعال اور ہوشیار رہتے ہیں اور معاشی امور کے لیے مفید واقع ہوتے ہیں۔ جب کہ سودی نظام میں سرمائے کامنافع یقینی ہوتا ہے اور صرف محنت کرنے والا ہی خطرہ مول لیتا ہے۔

ب: تجارت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ لیتے ہیں۔ مشتری خریدی ہو ئی چیز کا اور بائع فروخت شدہ مال کا نفع لیتا ہے۔ جب کہ سودی معاملے میں قرض دینے والا یقینی نفع کماتا ہے، حالانکہ قرض لینے والا اگر غیر پیداواری ضرورت کے لیے قرض لیتا ہے تو اس میں اسے کوئی نفع نہیں ہے اور اگر پیداواری امور کے لیے قرض لیتا ہے تو بھی نفع یقینی نہیں ہوتا۔

ج: تجارت میں فروخت کرنے والا مشتری سے ایک بار نفع کماتا ہے، جب کہ سود میں نفع کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے، جس کی زد میں مقروض کے تن کے کپڑے اور رہائش کا مکان تک آ جاتے ہیں۔

د: تجارت میں سرمائے کے ساتھ محنت بھی صرف ہوتی ہے، جب کہ سود میں اپنی ضرورت سے زائد رقم دے کر دوسرے کی محنت اور مشقت پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔

ھ: تجارت میں فریقین کاروبار اور اس کے منصوبے میں شریک ہوتے ہیں۔ دونوں نفع و نقصان میں شریک ہونے کی وجہ سے ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں۔ جب کہ سودی نظام معیشت میں پورا بازار مٹھی بھر سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور ان کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں رسد اور قیمتوں میں توازن مصنوعی ہو جاتا ہے اور دولت کا ارتکاز چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جاتا ہے۔

و: سودی نظام میں خواہ سرمایہ کام دے یا نہ دے، سرمایہ دار ہر صورت میں اپنی اجرت وصول کر لیتا ہے، بلکہ سرمائے میں خسارے کی صورت میں اس کی تلافی کر کے اسے واپس کرنا پڑتا ہے، جب کہ محنت کش کو ہر صورت میں اجرت نہیں ملتی، صرف منفعت حاصل ہونے کی صورت میں اجرت ملتی ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ سودی نظام میں سرمایہ محنت پر مسلط ہوتا ہے۔

ز: سودی نظام میں جو رعایت سرمائے کو حاصل ہے، وہ اگر محنت کو حاصل ہو جائے، یعنی محنت کش خواہ محنت کرے یا نہ کرے، ہر حال میں اسے اجرت دی جائے تو اس صورت میں محنت سرمائے پر مسلط ہو جائے گی۔ اس طرح یہ قانون بھی غیر عادلانہ ہو گا۔

ح۔ قرض کا مال، مالک کی عینی ملکیت سے نکل کر مقروض کی گردن پر ایک ذمہ داری میں بدل جاتا ہے۔ قرض کا وجود عینی یا نفع دیتا ہے یا خسارہ دیتا ہے۔ اب جب کہ قرض کے مقروض کے ذمے پر آنے کے بعد قرض دینے والا عین مال کا مالک نہ رہا، بلکہ اب قرض لینے والا اس کا مالک ہے، لہٰذا مال کے تلف ہونے کی صورت میں یہ مقروض کا مال ہے جو تلف ہو جاتا ہے، نہ کہ قرض دینے والے کا۔ اسی لیے اس مال کے سود و زیاں دونوں کا تعلق قرض لینے والے سے مربوط ہوتا ہے۔

سوال:

کچھ حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ غیر پیداواری قرض میں سود حرام ہے، مگر تجارت کی طرح پیداواری قرض میں سود حرام نہیں ہے۔

جواب:

جس دلیل سے سود کی حرمت ثابت ہو جاتی ہے، اس دلیل کے سیاق و سباق میں ہر سود حرام ہے۔ اس میں پیداواری اور غیر پیداواری دونوں قسم کے قرضوں کا سود شامل ہے اور ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ زمان رسالت (ص) میں بھی لوگ تجارت کے لیے قرض لیا کرتے تھے۔

ط: قرض دینے والا عین مال کا مالک نہیں رہتا، لہٰذا وہ اس مال کے آثار کا بھی مالک نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس مال پر مرتب ہونے والے مثبت اور منفی اثرات سے وہ متاثر نہیں ہو گا، لہٰذا سود لینا قرض کے مزاج کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر قرض مقروض کے قبضے میں آنے کے بعد تلف ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا (مقروض کا) مال تھا جو تلف ہو گیا۔ میرا قرض تمہارے ذمے ہے۔ جب کہ منافع دینے کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ میرا مال تھا جس نے منافع دیا، لہٰذا مجھے اس میں شریک کرو۔ بنابریں سودی نظام سراسر غیرعادلانہ ہے۔

اسلامی بینکاری: اسلامی بینکاری کا اجمالی خاکہ کچھ اس طرح ہے:

کھاتہ داروں کی رقوم دو اقسام پر مشتمل ہوں گی:

الف۔ عند الطلب قابل ادا قرضے: (کرنٹ اکاؤنٹ) یہاں رقم بینک کو بطور قرض دی جائے گی۔ البتہ کھاتہ دار جب چاہے واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ بینک اس رقم کا ایک حصہ محفوظ رکھے گا تاکہ مالکوں کو بوقت ضرورت واپس کر سکے۔ باقی سرمایہ، کاروباری افراد کو مضاربت (جس کی تفصیل آگے آئے گی) کے اصول پر دے گا۔ مضاربت سے جو منافع حاصل ہو گا وہ بینک کا ہو گا، کھاتہ دار کو اس پر کوئی منافع نہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ موجودہ بینکاری نظام میں بھی اس مد میں کوئی منافع نہیں دیا جاتا۔ اس سے بینک کو خاصی آمدنی ہو گی۔ کیونکہ موجودہ بینکاری میں یہ بات تجربے میں آئی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی رقوم Fixed Deposits کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں۔

ب۔ مضاربت: اس مد میں طویل المیعاد امانتوں (فکسڈ ڈیپازٹس مضاربت کے بنیادی سرمائے) کے ساتھ سیونگ اکاونٹ بھی شامل رہے گا۔

اسلامی بینکاری نظام میں سیونگ اکاؤنٹ اور فکسڈ ڈیپازٹ دونوں ایک ہی مد میں رکھے جاتے ہیں۔ مضاربت میں مدت کا تعین شرط نہیں ہے، البتہ مدت کا تعین کر لیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لحاظ سے اگر مدت کا تعین کیا جاتا ہے تو فکسڈ ڈیپازٹ ہو گا اور اگر مدت کا تعین نہیں کیا جاتا تو یہ سیونگ اکاؤنٹ ہو گا۔ دونوں صورتوں میں یہ رقوم مضاربت میں شامل ہوں گی۔

ان دونوں صورتوں میں اگر سرمائے کا مالک اس دوران اپنی رقم نکال لے تو اس رقم کی مضاربت ختم ہو جائے گی، کیونکہ مضاربت میں طرفین کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں مضاربت کو فسخ کر سکتے ہیں۔ اگر اس رقم کو تجارت پر لگانے اور نفع حاصل ہونے سے پہلے نکالا جائے تو مالک کو بلامنفعت صرف سرمایہ واپس ملے گا اور اگر نفع حاصل ہونے کے بعد نکالا جائے تو جو منفعت حاصل ہو چکی ہو وہ حسب معاہدہ آپس میں تقسیم ہو گی جیسا کہ آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی قدس سرہ فرماتے ہیں:

اِذَا کَانَ الْفَسْخُ اَوِ الْاِنْفِسَاخُ بَعْدَ حُصُوْلِ الرِّبْحِ فَاِنْ رَضِیَ کُلٌّ مِنَ الْمَالِکِ وَ الْعَامِلِ بِالْقِسْمَۃِ فَلَا کَلاَمَ وَ اِنْ لَمْ یَرْضَ اَحَدُھُمَا اَجْبَرَ عَلَیْھَا ۔ {منہاج الصالحین ۲: ۱۴۴}

معاملہ فسخ کرنے یا فسخ ہونے کی نوبت منافع کے حصول کے بعد ہے تو اگر مالک سرمایہ اور تاجر آپس میں منافع تقسیم کرنے پر راضی ہوتے ہیں تو فبھا ورنہ جو راضی نہیں ہوتا اسے راضی ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔

مضاربت: مضاربت کی تعریف میں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی قدس سرہ فرماتے ہیں:

ھِیَ اَنْ یَّدْفَعَ الْاِنْسَانُ مَالًا اِلٰی غَیْرِہٖ یَتَّجِرُ فِیْہِ عَلٰی اَنْ یَکُوْنَ الرِّبْحُ بَیْنَھُمَا بِالنِّصْفِ اَوِ الثُّلْثِ اَوْ نَحْوِ ذٰلِکَ {منہاج الصالحین ج ۲ بحث مضاربۃ}

مضاربت یہ ہے کہ انسان کسی شخص کو تجارت کی غرض سے سرمایہ فراہم کرے تاکہ منفعت میں نصف یا ایک تہائی یا اس طرح کے حساب سے دونوں حصہ دار ہوں۔

اسلامی بینکاری کا نظام مضاربت کی بنیادوں پر درج ذیل ارکان پر قائم ہو گا:

فریق اول: مالک سرمایہ

فریق دوم: محنت

درمیان میں کسی ثالث کا ہونا بھی درست ہو گا۔ یہاں بینک ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ یہاں ثالث (بینک) کھاتہ داروں کی طرف سے وکیل ہو گا کہ وہ کھاتہ داروں کا پیسہ صنعت کار، تاجر اور زراعت کار وغیرہ کو مقررہ شرائط کے تحت فراہم کرے۔

فریق اول کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سرمایہ فراہم کرے اور شرائط کا تعین کرے۔

فریق دوم اس سرمایہ کو پیداوار کے لیے استعمال کرے اور شرائط طے کرے۔

شروط:

۱۔ منافع سرمایہ اور محنت کے درمیان تقسیم ہو۔ مثلاً کل منافع میں سے چند فیصد سرمایہ کو، باقی محنت کو۔

۲۔ فریق اول یہ شرط عائد کر سکتا ہے کہ تاجر سرمایہ کو کسی خاص چیز مثلاً کپڑے کے کاروبار یا زراعت کے لیے مختص کرے۔ اس صورت میں تاجر کو اس کی پابندی کرناضروری ہے۔ پابندی نہ کرنے کی صورت میں وہ خسارے کا ضامن ہو گا۔

ثالث (بینک) اگر کھاتہ داروں کی طرف سے وکیل مقرر ہوتا ہے تو اس صورت میں بینک درج ذیل امور کا ذمے دار ہو گا:

۱۔ کھاتہ دار کی طرف سے تاجر کے ساتھ شرائط طے کرے گا۔

۲۔ بینک کو تاجر، صنعت کار وغیرہ کے پیداواری عمل اور بازار میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنا ہو گی، جس کی روشنی میں کاروبار میں منافع یا خسارے کی صورت حال بینک سے پوشیدہ نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے بینک کے پاس ایسے ماہرین اقتصادیات کا ہونا لازمی ہو گا جو تجربہ کار تاجر اور صنعت کار کی پہچان رکھتے ہوں اور ان کی کارگزاری اور پیداواری صورت حال پر نظر رکھ سکتے ہوں اور ایسی فضا قائم رکھ سکیں کہ کسی کو خیانت کرنے اور منافع چھپانے کا موقع میسر ہی نہ آئے۔

۳۔ بینک کھاتہ دار کے سرمایہ کی ضمانت بھی فراہم کرے کہ خسارہ ہونے کی صورت میں وہ اس خسارے کو ادا کرے گا۔ درج بالا صورت حال میں بینک اس ضمانت کے فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔

۴۔ بینک تاجر پر یہ شرط بھی عائد کر سکتا ہے کہ وہ بینک کو تمام تجارتی امور سے آگاہ رکھے۔ مال کی خریداری سے لے کر پیداواری عمل کے اختتام تک تمام مراحل بینک کے علم میں ہوں۔ جدید کمپیوٹرائز سسٹم کے ذریعے اس قسم کی تمام تفصیلات سے آگاہ رہنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔

منافع کی تقسیم: سرمایہ اور محنت کے درمیان منافع کی تقسیم میں بینک کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ بینک مضاربت میں فریق نہیں ہے، بلکہ بینک کو اپنی بینکنگ خدمات کے مقابلے میں حق الخدمت (Service Charges) ملے گا۔

اس حق الخدمت کی فقہی توجیہ کے لیے درج ذیل عناوین قابل تطبیق ہیں:

جعالہ، اجرۃ المثل، اجارہ وغیرہ۔ بینک اس سلسلے میں متعدد خدمات انجام دیتا ہے:

۱۔ بینک چھوٹے سرمایہ کو عظیم طاقتور بناتا ہے۔ اگر بینک کھاتہ داروں کے چھوٹے سرمایوں کو جمع کر کے طاقتور سرمایہ نہ بناتا تو یہ چھوٹے اور کمزور سرمائے ملکی اقتصاد میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتے تھے۔

۲۔ بینک سرمایہ کو جمود و رکود سے نکال کر اسے متحرک بناتا ہے۔

۳۔ بینک سرمایہ کو متحرک بنانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے۔

۴۔ بینک کھاتہ داروں کے سرمایہ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

سودی بینکاری کے متبادل دیگر غیر سودی اسلامی بینکاری کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:

مشارکت: یعنی سرمایہ میں مشارکت کی بنیاد پر تجارت۔ اس میں بینک بجائے اس کے کہ تاجر کو سودی قرضہ دے، تاجر کے ساتھ سرمایہ میں شرکت کرے گا۔ یہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہو گا۔ بینک یہ سرمایہ اپنے کھاتہ داروں کی رقوم سے فراہم کرے گا اور حاصل ہونے والا منافع کھاتہ داروں کو اس کی رقم کے مطابق ادا کرے گا۔

وکالت: یعنی بینک تاجروں کو سودی قرض دینے کی بجائے انہیں اپنی طرف سے وکیل بنائے گا اور بینک خود بھی کھاتہ داروں کی طرف سے وکیل ہے تو یہ بجائے اس کے کہ خود تجارت کرے، اپنی طرف سے دیگر تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کو وکیل بنا سکتا ہے۔ تاجر بینک کی طرف سے وکالت کی بنا پر سامان تجارت خریدے گا اور اسی وکالت کی بنا پر بینک کی طرف سے خود اپنے کو فروخت کرے گا۔ البتہ قیمت فروخت، قیمت خرید سے زیادہ ہو گی۔ اس طرح بینک کو منافع ملے گا جو سودی منافع سے زیادہ ہو سکتا ہے۔

مرابحہ بیع مؤجل: یہ اس طرح ہو گا کہ بینک اپنے نمائندوں، تاجروں اور صنعت کاروں وغیرہ کو تجارتی سامان خریدنے کے لیے سودی قرض دینے کی بجائے خود تجارتی سامان خریدے گا اور اس سامان کو تاجروں کے ہاتھ فروخت کرے گا۔ اس فروخت میں تین باتیں ملحوظ رکھی جاتی ہیں:

۱۔ یہ بیع مؤجل ہو گی۔ یعنی قیمت نقداً نہیں لی جائے گی، بلکہ قیمت کی ادائیگی کے لیے مدت کا تعین کیا جائے گا۔

۲۔ قیمت خرید سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جائے گا۔ اس سے بینک کو آمدنی ہو گی۔

۳۔ بینک یہ سامان تاجر کی طرف سے آرڈر پر خریدے گا اور تاجر اپنے آرڈر شدہ سامان کے خریدنے کا پابند ہو گا، ورنہ خسارہ ہو نے کی صورت میں تاجر یہ خسارہ بھرے گا، چونکہ سامان اس کے آرڈر پر خریدا گیا ہے۔ {احکام البنوک۔ آیۃ اللہ فیاض}

بیع مؤجل فقہی اعتبار سے درست ہونے کی صورت میں سودی نظام کے متبادل کے طور پر اس بیع کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود فتاویٰ قاضی خان اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژنل بنچ نے اسے سود ہی کی ایک شکل قرار دیا ہے، جب کہ فقہی مآخذ نے اسے فقہ حنفی کے مطابق درست قرار دیا ہے۔

اسلامی فقہ کی روسے سرمایہ کے احکام: اپنا مال کسی دوسرے کے حوالے کرنے کی درج ذیل صورتیں ہیں:

۱۔ ودیعت: اپنا مال دوسرے کے حوالے اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے، اسے ودیعت اور امانت کہتے ہیں۔

۲۔ قرض: اگر یہ مال کسی کے حوالے اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کی مثل اسے واپس کرے، یہ قرض ہے۔

۳۔ بضاعہ: اگر یہ مال بغیر اجرت لیے تجارت کے لیے دیا گیا ہے تو اسے بضاعہ (سرمایہ کاری) کہتے ہیں۔

۴۔ اگر یہ مال اس لیے دوسرے کو دیا گیا ہے کہ دوسرے شہر میں اس کو دیا جائے تو یہ ’’حوالہ ‘‘ ہے۔

۵۔ اگر یہ مال دوسرے کو تجارت کے تحت منافع کے لیے دیا گیا ہے، اسے مضاربت کہتے ہیں۔ اگرمنافع کی تقسیم کا ذکر نہیں ہے تو یہ منافع سرمائے کا ہو گا اور تاجر کو اجرۃ المثل مل جائے گی۔

اگر منافع کی تقسیم کا تعین ہو تو منافع ملنے کی صورت میں طرفین منافع کے حقدار ہوں گے۔ اگر خسارہ ہوا تو محنت کو کچھ نہیں ملے گا اور خسارہ صاحب سرمایہ اٹھائے گا۔

مأخذ: مضاربت کے سلسلہ میں امامیہ فقہی مصادر میں صراحت موجود ہے۔

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

انہ قال فی المتضاربین۔۔۔ الربح بینھما علی ما اتفقا علیہ و الوضیعۃ علی المال ۔ {دعائم الاسلام ۲ :۸۶}

مضاربت کے بارے میں فرمایا:۔۔۔ منافع متفقہ نسبت سے آپس میں تقسیم ہو گا اور خسارہ سرمایہ اٹھائے گا۔

حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان غیر امامیہ مصادر میں اس طرح آیا ہے۔ مضاربت کے بارے میں فرمایا:

الوضیعۃ علی المال و الربح علی ما اصطلحوا علیہ ۔ {نیل الاوطار ۵ : ۳۹۳ کتاب المضاربۃ}

منافع متفقہ نسبت سے آپس میں تقسیم ہو گا اور خسارہ سرمایہ اٹھائے گا۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی ہے:

الربح بینھما و الوضیعۃ علی المال ۔ {الاستبصار ۳ :۱۲۶}

منافع آپس میں تقسیم ہو گا، خسارہ سرمائے پر ہو گا۔

غیر امامیہ مصادر میں مضاربت کا کوئی مأخذ نہیں ہے۔

چنانچہ ابن حزم کہتے ہیں:

کل ابواب الفقہ فلھا اصل فی الکتاب و السنۃ حاشا القراض فما وجدنا لہ اصلاً البتہ ۔

فقہ کے تمام ابواب کا کتاب و سنت میں کوئی مأخذ ہوا کرتا ہے، سوائے مضاربہ کے۔ اس کا ہم نے کوئی مأخذ نہیں پایا۔

اہل حجاز قراض اور اہل عراق مضاربۃ کہتے ہیں۔

قرض حسنہ: رہا یہ سوال کہ غیر سودی بینک ضرورت مندوں کے لیے غیر پیداواری قرضے، بلا سود کس طرح جاری کرے گا؟ اور اس کا کیا جواز ہو گا؟ تو جواب یہ ہے کہ خود بینک کو کرنٹ اکاؤنٹ کی مد میں ایک بہت بڑا سرمایہ غیر سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکاہے۔ اس رقم میں سے ایک حصہ وہ غیرسودی قرضوں کے طور پر دے سکتا ہے۔ بینک اس رقم سے بلا سود غیر تجارتی قرضے اور قلیل المیعاد قرضے جاری کرے گا۔ اول الذکر غیر تجارتی ہونے کی وجہ سے اور مؤخر الذکر کو قلیل مدت ہونے کی وجہ سے مضاربت کی بنیاد پر دینا ممکن نہ ہو گا، لہٰذا بینک اس قسم کے قرضے بلا سودجاری کرے گا۔ البتہ یہ قرضے جاری کر نے کے لیے ان کے حساب و کتاب کی اجرت لینا جائز ہے۔ مثلاً قرض کی درخواست کے لیے فارم کی قیمت لی جائے وغیرہ۔

اہم نکات

۱۔ قانون الٰہی میں سود ہمیشہ سے حرام رہا ہے۔

۲۔ انسانی قوانین نے ہمیشہ سرمایہ دارں کی حمایت میں سود کو جائز قرار دیاہے۔

۳۔ سود لینا قساوت قلبی اور انسانی اقدار سے عاری ہونے کی علامت ہے۔

۴۔ سود سے اقتصادی توازن ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ قرض لینے والے کی پیداواری صلاحیت ہر روز کم ہوتی چلی جاتی ہے اور قرض دینے والے کی مالی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس معاشی بحران اور ظالمانہ طبقاتی نظام کی وجہ سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔

۵۔ تجارت اور سود نفسیاتی، معاشی، سماجی، سیاسی اور اخلاقی اثرات کی وجہ سے نیز اپنی اپنی ماہیت کے اعتبار سے دو الگ اور متضاد چیزیں ہیں۔ تجارت مفید جب کہ سود نقصان دہ ہے۔

۶۔ سودی نظام معیشت معاشرے کے لیے ہلاکت آفرین ہے۔ اسلام نے اسے اللہ اور رسول (ص) کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے اور اپنا غیر سودی نظام متعارف کرایا ہے جو شراکت، مضاربت اور قرض حسنہ کے اصولوں پر قائم اور معاشرے میں اقتصادی توازن برقرار رکھنے کا ضامن ہے۔

تحقیق مزید:

الکافی ۲ : ۲۸۵ باالکبائر۔ التہذیب ۷ : ۱۵ باب فضل التجارۃ۔ مستدرک الوسائل ۱۳ : ۳۳۱ باب تحریم الربا۔ ۳۳۴ باب ثبوت القتل۔


آیت 275