آیت 83
 

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۳﴾

۸۳۔ میرے رب! مجھے حکمت عطا کر اور صالحین میں شامل فرما۔

تفسیر آیات

۱۔ حُکۡمًا: حکم کے بارے میں اقوال بہت زیادہ ہیں۔ہمارے نزدیک ا س کے معنی حقائق کا فہم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی تعریف بیان کرنے کے بعد عملاً اسی سے اپنی وابستگی کا اظہار فرماتے ہیں اور اپنے لیے ایک ایسی چیز کی درخواست کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبی کی نظر میں سب سے اہم ہے۔ وہ ہے: رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا ۔ پروردگار مجھے فہم عنایت فرما کہ میں اس راز کو سمجھوں جس کے بعد میرا ہر فیصلہ صائب ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا سن لی:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿﴾ (۲۱ انبیاء: ۵۱)

اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔

حکم یعنی حقائق کا فہم ایک ایسی اہم چیز ہے جو انبیاء کو عنایت ہوتی ہے۔

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗۤ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔۔ (۱۲ یوسف: ۲۲)

اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی۔

وَ لُوۡطًا اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۷۴)

اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔

فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۷۹)

تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا۔

۲۔ وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ: جس صلاح کی حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اول الصالحین درخواست کر رہے ہیں وہ ایسی صلاح ہے جو رہتی دنیا تک تمام عالمین کے لیے صلاح کا نمونہ ہو۔ شیخ طوسی علیہ الرحمۃ صلاح کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

و ھو الاستقامۃ علی ما امر اللہ بہ و دعا الیہ ۔

صلاح ، اللہ نے جس چیز کا حکم دیا اور جس چیز کی طرف دعوت دی ہے اس میں استقامت دکھانے کو کہتے ہیں۔

الصالحین سے مراد وہ انبیاء ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے گزرے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اگرچہ جلیل القدر نبی، خلیل خدا ہیں تاہم اپنے آباء و اجداد سے وابستگی کو اپنے لیے شرف سمجھتے ہیں۔


آیت 83