آیت 63
 

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۶۳﴾

۶۳۔ پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی اپنا عصا سمندر پر ماریں چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح ہو گیا۔

تشریح کلمات

انفلق:

( ف ل ق ) الفلق کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے الگ کرنے کے ہیں۔

الطود:

( ط و د ) الطود بلند پہاڑ۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل جب مشکل ترین صورت حال میں دوچار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ بنی اسرائیل کو ایک واضح معجزے کے ذریعہ نجات دلانا ارادہ الٰہی سے مربوط ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہے کہ یہ نجات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کسی عمل سے مربوط ہو۔

چنانچہ عصائے موسیٰ مارنے سے سمندر شق ہو گیا اور دونوں طرف پانی بلند پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہو گیا۔ نہ صرف سمندر شق ہو گیا بلکہ راستہ خشک بھی ہو گیا تھا۔ سورہ طٰہ میں فرمایا:

فَفَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۔۔۔۔ (۲۰ طٰہ: ۷۷)

ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنا دیں۔

لہٰذا اس واضح عبارت اور صراحت کے خلاف یہ کہنا کہ بنی اسرائیل ساحل سمندر سے بہ سلامت گزر گئے اور فرعونیوں کو سمندر سے اٹھنے والے ایک طوفان نے غرق کر دیا یا سمندر کے مدوجزر سے غرق ہو گیا، قرآن کی صراحت کو مسترد کر دینے کے مترادف ہے۔


آیت 63