آیات 86 - 87
 

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ﴿۸۶﴾

۸۶۔ کہدیجئے: سات آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ وہ کہیں گے: اللہ ہے، کہدیجئے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟

تفسیر آیات

۱۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ مخاطب مشرکین سات آسمانوں کا اللہ ہی کو رب مانتے تھے۔ وہ صرف زمین و اہل زمین کے لیے دیگر ارباب کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اگرچہ وثنیت کے بعض دیگر مذاہب نجوم و کواکب سورج اور فرشتوں کو آسمانوں کا رب مانتے تھے۔

یا ممکن ہے اس حوالے سے اللہ کو سات آسمانوں کا رب تسلیم کرتے تھے چونکہ ان کے نزدیک اللہ رب الارباب ہے۔

۲۔ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ: رب الارباب ہونے کے اعتبار سے مشرکین اللہ کو عرش عظیم کا رب مانتے تھے ورنہ اگر ہم عرش کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ عرش اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیر کا نام ہے تو مشرکین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اللہ رب العرش بمعنی مدبر کل کائنات ہے۔

اس آیت میں ایک لطیف اشارہ یہ سمجھا گیا ہے کہ سوال یہ ہوا تھا: سات آسمانوں کا رب کون ہے؟ تو جواب ’’اللہ ہے‘‘ ہونا چاہیے تھا لیکن جواب میں ’’اللہ کے لیے ہے‘‘ کہا گیا۔ یہاں بھی مالکیت کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے کہ ان سب کا حقیقی مالک اللہ ہے۔ لہٰذا موت و حیات اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔


آیات 86 - 87