آیات 57 - 61
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَۃِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ ﴿ۙ۵۷﴾

۵۷۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ہراساں ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۵۸﴾

۵۸۔ اور جو اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِرَبِّہِمۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۹﴾

۵۹۔ اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے،

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمۡ اِلٰی رَبِّہِمۡ رٰجِعُوۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾

۶۰۔ اور جو کچھ وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے لرز رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ ہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ یہی لوگ ہیں جو نیکی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اور یہی لوگ نیکی میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

تشریح کلمات

خَشۡیَۃِ: (خ ش ی) خوف یشوبہ التعظیم ( راغب ) اس خوف کو کہتے ہیں جس میں تعظیم کا شائبہ ہو۔

مُّشۡفِقُوۡنَ:

( ش ف ق ) العنایۃ المختلطۃ بخوف ( راغب ) وہ مہربانی جس میں خوف کا عنصر شامل ہو۔ اسی سے ناصح کو شفیق کہتے ہیں کہ وہ منصوح کے بارے میں خائف رہتا ہے۔

وجل:

( و ج ل ) خوف کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

کفر و سرکشی میں سبقت لے جانے والوں کے ذکر کے بعد نیکیوں کی طرف دوڑ کر سبقت لے جانے والوں کا ذکر ہے۔ ان سبقت لے جانے والوں کی پہلی صفت یہ ہے:

۱۔ وہ خوف خدا کی وجہ سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ ڈر اس لیے نہیں کہ انہوں نے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ہے بلکہ انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ان کا عمل قبول ہوا ہے یا نہیں۔ بندگی کا حق ادا نہیں ہوا۔ اللہ کی عظمت کے مقابلے میں اپنے عمل کو ہیچ سمجھ کر ان پر خوف طاری ہوتا ہے۔

اس خوف کے ایک طرف اللہ کی عظمت ہے دوسری طرف اپنے انجام کا ڈر ہے۔ اس لیے خشیۃ اور مشفق دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ خوف کے سامنے اللہ کی عظمت ہونے کی وجہ سے خشیۃ کہا ہے۔ اپنے انجام کے بارے میں بھی خوف کا شکار ہیں لیکن یہ خوف اپنے نفس پر رحم آنے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اس خوف کو مشفق کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشفق ہونے کو خشیۃ کا نتیجہ قرار دے دیا ہے۔ یہ مؤمنین، اللہ کی عظمت کے سامنے اپنے عمل کو ناچیز سمجھ کر عاقبت کی فکر میں خائف رہتے ہیں۔

۲۔ وہ اپنے رب کی ہر نشانی سے گزرتے ہیں تو اسے معمولی نہیں سمجھتے بلکہ آیات انفس و آفاق میں غور کرتے ہیں۔ اپنے ایمان میں اضافہ کرتے ہیں۔

۳۔ آیات الٰہی میں غور و ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ ایسے لوگ شرک میں مبتلا نہیں ہوتے۔ ان نشانیوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کائنات پر حاکم نظام کی وحدت، نظام دہندہ کی وحدت کی دلیل ہے۔

۴۔ وہ جو عمل بھی انجام دیتے ہیں تو اس عمل پر اترانے کی جگہ اس بات پر خائف رہتے ہیں کہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول ہے؟ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے۔

وَھُمْ فِی ذَلِکَ خَائِفُونَ اَنْ لَا یَقْبَلَ مِنْہُمْ ۔۔ (الکافی: ۸:۱۲۸)

وہ اس بات سے خائف ہیں کہ کہیں قبول نہ ہو۔

اہل سنت کے مصادر میں بھی اس مضمون کی روایت موجود ہے۔

۵۔ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا: یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا کی تفسیر میں چند اقوال ہیں: اس سے مراد یعطون ما اعطوا یعنی زکوۃ واجبہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد تمام نیکیاں ہیں۔ ایک قول ہے یفعلون ما فعلوا مراد ہے۔ یعنی جو کام بھی کرتے ہیں ثواب یا گناہ کا، دل میں خوف رکھتے ہیں۔

ان میں وہ قول مستند ہے جو احادیث پر مبنی ہے۔ یعنی تمام نیکیاں۔

۶۔ اَنَّہُمۡ اِلٰی رَبِّہِمۡ رٰجِعُوۡنَ: اس خوف کا اصل سرچشمہ، عاقبت کا خوف ہے۔ اللہ کے حضور جوابدہی کا خوف ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہے۔

۷۔ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ: مذکورہ اوصاف کے مالک نیکیوں کی طرف سرعت سے جاتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے:

من فضیلۃ النفس المسارعۃ الی الطاعۃ ۔ (غررالحکم: ۱۸۲)

نفس کی فضیلت میں سے ہے طاعت کی بجا آوری میں تاخیر نہ کرنا۔

یعنی انتہائی رغبت کے ساتھ نیکی کی انجام دہی کے لیے لپک کر جانا اور کاہلی نہ کرنا افضل ترین بندگی ہے۔

۸۔ وَ ہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ: وہ دوسروں پر سبقت لے جانے والے اور سب سے پہلے کارخیر کی انجام دہی کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مسارعت فی الخیرات کرنے والے سابقین میں ہوتے ہیں۔

۲۔ بندگی یہ ہے کہ عمل صالح کے بعد دل میں خوف رہے: وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ ۔۔۔۔

۳۔انسان کو اللہ کی عظمت اور اپنے انجام کے بارے میں خائف رہنا چاہیے۔ مِّنۡ خَشۡیَۃِ رَبِّہِمۡ ۔۔۔


آیات 57 - 61