آیت 33
 

وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَتۡرَفۡنٰہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۙ یَاۡکُلُ مِمَّا تَاۡکُلُوۡنَ مِنۡہُ وَ یَشۡرَبُ مِمَّا تَشۡرَبُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کر رکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ اس قوم کے سرداران نے اس رسول کی تکذیب کی۔ قوم کے ان سرداروں کی دو باتوں کا ذکر ہے:

الف۔ وَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ: وہ آخرت کے منکر تھے جوان سرداروں کے مفاد میں نہیں تھی اور حساب و کتاب کا تصور ان کی سرداری کے منافی تھا۔

ب۔ اَتۡرَفۡنٰہُمۡ: وہ مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عدل و انصاف مراعات یافتہ طبقہ کے حق میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ ہر دعوت حق کی مخالفت میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ خوش عیشی، کرسی و اقتدار سے پیمانے بدل جاتے ہیں اور ہر معاشرے میں فساد لانے والا یہی مراعات یافتہ طبقہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں اسی طبقہ نے بگاڑ پیدا کیا۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں یہ مراعات یافتہ طبقہ موجود نہیں تھا۔ بعد میں جیسے اس طبقے نے اپنا وجود پایا، حقوق کی پامالی شروع ہو گئی اور عدل وانصاف ناپید ہو گیا۔

ان سرداروں نے عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا: تم ان پر ایمان نہ لاؤ۔

۲۔ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ: انہیں رسول کی بشریت اور انسانیت پر اعتراض تھا اور وہ انسان کو اللہ کی سفارت کے لیے اہل نہیں سمجھتے تھے چونکہ یہ لوگ انسان کے روحانی پہلو سے واقف نہیں تھے۔

۳۔ یَاۡکُلُ مِمَّا تَاۡکُلُوۡنَ مِنۡہُ وَ یَشۡرَبُ مِمَّا تَشۡرَبُوۡنَ: سرداران قوم کو جب یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے کی دعوت کو اگر پذیرائی ملی تو ہماری سرداری خطرے میں پڑ جائے گی، دو باتیں اٹھائیں: ایک یہ کہ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا ہمارے طرح کا انسان ہے۔ اسی گوشت پوست والاآدمی ہے۔ دوسری یہ کہ یہ لوگ وہی چیز کھاتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں اور وہی چیز پیتے ہیں جو ہم پیتے ہیں تو ان کو اللہ کی نمائندگی کہاں سے مل گئی؟ اگر یہ لوگ اللہ کے نمائندے ہوتے تو عام انسانوں سے مختلف ہوتے اور ان چیزوں کے محتاج نہ ہوتے جن کے ہم محتاج ہیں۔

اس قسم کے اعتراضات کا جواب سورۃ الانعام آیت ۹ میں دے دیا گیا ہے۔


آیت 33