آیت 58
 

فَجَعَلَہُمۡ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیۡرًا لَّہُمۡ لَعَلَّہُمۡ اِلَیۡہِ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔

تشریح کلمات

جُذٰذًا:

( ج ذ ذ ) الجذ کے معنی توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَجَعَلَہُمۡ جُذٰذًا: ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ تاریخ کی پہلی بت شکنی عمل میں آ گئی۔ جرات و شجاعت کی عظیم مثال قائم ہو گئی۔ غیر اللہ کی پوجا کرنے والوں کی موہوم امیدیں زمین بوس ہو گئیں۔ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں پر تکیہ کرنے والوں کا وہمی سہارا پاش پاش ہو گیا۔ انسان کو پہلی بار یہ درس ملا کہ ایک شخص کے ہاتھوں پاش پاش ہونے والی چیز کائنات کی تدبیر میں حصہ دار نہیں ہو سکتی۔ غیر اللہ کی پناہ میں جانے والوں کی بے بسی سامنے آ گئی۔

۲۔ اِلَّا کَبِیۡرًا لَّہُمۡ: بڑے بت کو چھوڑ کر دعوت فکر دی کہ یہ بت اپنے چھوٹے بتوں کو نہیں بچا سکا اور اس کے سامنے پاش پاش ہو گئے۔

۳۔ لَعَلَّہُمۡ اِلَیۡہِ یَرۡجِعُوۡنَ: وہ اس بڑے بت کی طرف رجوع کریں اور پوچھ لیں کہ ان چھوٹے بتوں کو کس نے توڑا؟ تم نے ان کو کیوں نہیں بچایا۔ ہم نے تو تمہیں اپنے لیے سہارا سمجھا تھا تم تو بے بس ثابت ہوئے کہ اپنے بتوں کو بھی نہیں بچا سکے۔

بہ یک قدم اور ایک ہی وار میں بت پرستوں کے جذبات کو جھنجوڑا اور ان کی عقل کو بھی۔ بتوں کو پاش پاش کر کے ان کے جذبات کو جھنجوڑا اور بڑے بت کو سالم چھوڑ کر ان کی عقل کو بھی سوچنے کی دعوت دی۔ یہ ہے رشد ابراہیمی کہ آنے والی نسلوں کو دعوت فکر دی اور بت پرستی کے خلاف سوچنے کا سلیقہ دیا، ورنہ آج ساری دنیا پر بت پرستی حاکم ہوتی۔

اہم نکات

۱۔ جو اللہ کے لیے قیام کرتا ہے وہ رسوا نہیں ہوتا۔

۲۔ غیر اللہ پر بھروسہ رکھنے والے رسوا ہوتے ہیں۔


آیت 58