آیات 219 - 220
 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۲۱۹﴾ۙ

۲۱۹۔لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: ان دونوں کے اندر عظیم گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی، مگر ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے اور یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہدیجئے: جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو

فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ قُلۡ اِصۡلَاحٌ لَّہُمۡ خَیۡرٌ ؕ وَ اِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۲۰﴾

۲۲۰۔ دنیا اور آخرت کے بارے میں اور یہ لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے:ان کی اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو(اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ) وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں تکلیف میں ڈال دیتا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

الۡخَمۡرِ:

( خ م ر ) کسی چیز کے چھپانے کے معنوں میں ہے، کیونکہ شراب عقل کو پس پردہ ڈال کر اسے زائل کر دیتی ہے اور اس کی وجہ سے اچھی اور بری چیزمیں تمیز نہیں ہو سکتی۔

الۡمَیۡسِرِ:

( ی س ر ) جوئے کو مَیسِرِ (آسان) کہتے ہیں، کیونکہ جوئے کے ذریعے آسانی سے پیسہ ہتھیا لیا جاتا ہے۔

اِثۡمٌ:

( ا ث م ) پیچھے رہنا اور تاخیر کے معنوں میں آتا ہے۔ لہٰذا کار خیر سے پیچھے رکھنے والی ہر چیز کو اثم یعنی گناہ کہا گیا ہے۔

تفسیر آیات

شراب نوشی ایام جاہلیت میں ایک عام بیماری تھی، جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسے معاشرے سے دور کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی گئی۔ چنانچہ شراب کی حرمت کو تدریجاً چار مرحلوں میں بیان اورنافذ کیا گیا:

۱۔ سب سے پہلے مکہ میں یہ آیت اتری، جس میں شراب جیسی ناپاک چیزوں کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا:

قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ۔۔۔ {۷ اعراف : ۳۳}

کہدیجیے: میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی (کے ارتکاب)، گناہ، ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام کیا ہے۔

۲۔ شراب پی کر نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی ۔۔۔ {۴ نساء : ۴۳}

اے ایمان والو !نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو۔

۳۔ اس کے بعد زیر بحث آیت نازل ہوئی۔ اس میں شراب اور جوئے کے نقصانات کی طرف اشارہ فرمایا گیا اور اس بات کو بھی قبول کیا گیا کہ اس میں کچھ فوائد بھی ہیں جو گناہ کے مقابلے میں کم ہیں۔ اس میں حرمت کی تصریح ہے۔ کیونکہ شراب کو اثم یعنی گناہ کہا گیا ہے۔

۴۔ آخر میں شراب اور چند دیگر چیزوں کی حرمت کے بارے میں فیصلہ کن حکم آ گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ {۵ مائدہ : ۹۰}

اے ایمان والو! شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں، پس اس سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو۔

وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے اثم کے معنی میں سستی اور پسماندگی کا مفہوم مضمر ہے اور آیہ شریفہ کے مطابق شراب اور جوئے میں یہ اثرات بہت بڑے پیمانے پر موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ:

۱۔ طبی لحاظ سے بادہ خواری سے معدہ، آنتوں، جگر، اعصاب، شریانوں، قلب اور حواس مثلاً بصارت وغیرہ پر برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں اور شرابی معاشروں میں ان برے اثرات کے بے پناہ اعداد و شمار سامنے آتے رہتے ہیں۔

۲۔ اخلاقی لحاظ سے شراب انسان کو درندہ بنا دیتی ہے جسے جرائم کے ارتکاب، قتل و غارت اور عصمت دری وغیرہ میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔

۳۔ عقلی نقطۂ نظر سے شراب انسان سے اس کی انسانیت کو سلب کر لیتی ہے۔ عام طور پر آدمی غیر انسانی حرکتوں سے اس لیے باز رہتا ہے کہ اس میں ضمیر، غیرت و حمیت، مہر و محبت، شرم و حیا، ایثار و احسان، ہمدردی اور رحم جیسے پاک جذبات موجود ہوتے ہیں۔ شراب انسان سے ان تمام اقدار کو سلب کر لیتی ہے اور انسان کو احساس جرم و گناہ سے محروم کر دیتی ہے۔ چنانچہ اس وقت دنیامیں بہت سے انفرادی و اجتماعی جرائم شراب نوشی کے بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات ہیں۔

جوئے اور دیگر شیطانی اعمال کے بارے میں ہم سورۂ مائدہ میں تفصیل بیان کریں گے۔

رسول اکرم (ص) سے ایک سوال یہ ہوا تھا کہ ہم کیا خرچ کریں؟ حکم ملا کہ انہیں کہدیجیے: اپنی ضروریات سے زائد مال کو راہ خدا میں خرچ کریں۔ یعنی زکوٰۃ اور خمس دینے کے بعد بھی اگر مال ان کی ضروریات سے زائد ہو تو اسے را ہ خدا میں خرچ کر دیں اور معاشرے میں اقتصادی اور طبقاتی توازن برقرار رکھیں۔

یتیم کے مال کے بارے میں پہلے نہایت شدید احکام آئے اور قرآن نے یتیم کا مال کھانے کو پیٹ میں آگ بھرنے سے تشبیہ دی۔ اس پر مسلمانوں نے یتیموں سے میل جول ترک کر دیا تو سوال پیدا ہوا کہ ان کی دیکھ بھال کس طرح کی جائے؟ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر ان سے مل جل کر ان کی دیکھ بھال ہو سکتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یعنی یتیم کے مال سے پرہیز کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ اس سے ہر قسم کی دوری اختیار کرلی جائے، بلکہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس کے اموال و حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ یتیموں کے مال کو اپنے مال سے ملا کر انصاف سے خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اصلاح اور خرابی کا تعلق ارادے اور عمل سے ہے، دکھاوے سے نہیں۔ جو لوگ اصلاح کرنے والے ہیں اور اسی طرح جو فسادی ہیں، اللہ ان کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔

احادیث

حدیث نبوی ہے:

اِنَّ الْخَمْرَ رَاْسُ کُلِّ اِثْمٍ ۔ {اصول الکافی ۶ : ۴۰۲}

شراب تمام گناہوں کا سر چشمہ ہے۔

اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت رسول خدا (ص) سے روایت فرماتے ہیں:

لَعِنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِی الْخَمْرِ عَشَرۃً: غَارِسَھَا وَ حَارِسَھَا وَ عَاصِرَھَا وَ شَارِبَھَا وَ سَاقِیْھَا وَ حَامِلَھَا وَ الْمَحْمُوْلَۃَ اِلَیْہِ وَ بَایِعَھَا وَ مُشْتَرِیْھَا وَ آکِلَ ثَمَنِھَا ۔ {اصول الکافی ۶ : ۴۲۹}

رسول خدا (ص) نے شراب کے بارے میں دس افراد پر لعنت بھیجی ہے: پودا لگانے والے، اس کی نگہداری کرنے والے، کشید کرنے والے، پینے والے، پلانے والے، اٹھانے والے، جس کے لیے اٹھائی جائے اس پر، فروخت کرنے والے، خریدنے والے اور اس کی کمائی صرف کرنے والے پر۔

مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْعَفْوُ ھَاہُنَا مَا فَضُلَ عَنْ قُوْتِ السَِّنَۃِ ۔ {فقہ القرآن ۱: ۲۴۰}

آیت میں العفو سے مراد سالانہ اخراجات سے زائد مال ہے۔

تفسیر قمی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :

جب یہ آیت نازل ہوئی :

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا ۔ {۴ نساء : ۱۰}

جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔

تو جس جس کے پاس یتیم موجود تھے سب نے انہیں اپنے ہاں سے نکال دیا۔ لوگ رسول خدا (ص) سے یتیموں کے بارے میں سوال کرنے لگے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ {تفسیر القمی ۱ : ۷۲}

اہم نکات

۱۔ احکام شریعت انسانی مصالح و مفاسد کی بنیاد پر استوار ہیں: وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا

۲۔ شراب نوشی اور جوا گناہان کبیرہ میں سے ہیں: فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ ۔

۳۔ جزوی فوائد حرمت کو جواز میں بدل نہیں سکتے: وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا

۴۔ ضرورت سے زائد مال کو راہ خدا میں زاد آخرت کے طور پر خرچ کرنا چاہیے: مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ

۵۔ احکام شریعت اللہ کی واضح نشانیاں ہیں جن میں غور و فکر کرنا ضروری ہے: کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ ۔

۶۔ ہر ممکن طریقے سے یتیموں کے مفادات کا تحفظ اور ان کی اصلاح حال مسلمانوں کی معاشرتی ذمہ داری ہے۔

۷۔ یتیموں کے ساتھ غیروں جیسا نہیں، بلکہ بھائیوں جیسا سلوک روارکھنا چاہیے: وَ اِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ

۸۔ یتیموں کے ساتھ ناروا سلوک رکھنے والے خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتے۔

تحقیق مزید:

آیت ۲۱۹: الکافی ۴ : ۵۲، ۶ : ۴۰۶، الفقیہ ۲ : ۶۴، الوسائل ۱۷ : ۳۲۵، ۲۱ : ۵۵۴، ۲۵ : ۳۰۱، مستدرک الوسائل ۱۷ : ۸۳۔

آیت ۲۲۰: الکافی ۵ : ۱۲۹۔ ۱۳۰، التہذیب ۶ : ۳۳۹ تا ۴۱


آیات 219 - 220