آیت 217
 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۱۷﴾

۲۱۷۔ لوگ آپ سے ماہ حرام میں لڑائی کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: اس میں لڑنا سنگین برائی ہے، لیکن راہ خدا سے روکنا، اللہ سے کفر کرنا، مسجد الحرام کا راستہ روکنا اور حرم کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک زیادہ سنگین جرم ہے اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑا گناہ ہے اور وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوں گے اور ایسے لوگ اہل جہنم ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

شان نزول

رسول خدا (ص) نے قریش کی نقل و حرکت اور ان کے ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے عبد اللہ بن جحش کی سربراہی میں ایک دستہ نخلہ کی طرف بھیجا،جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ ہے۔ یہاں پہنچ کر قریش کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ان کاسامنا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس پر حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کیا اور دو کو اسیر بنا لیا۔پھر انہیں مال سمیت مدینہ لے آئے۔ یہ واقعہ رجب کے آخری دن پیش آیا تھا اور رجب ماہ حرام ہے، اس میں جنگ کرنا حرام ہے، لیکن یہ شبہ بھی موجود رہا کہ ہو سکتا ہے کہ قتل اول شعبان میں واقع ہوا ہو اور چونکہ شعبان ماہ حرام نہیں، اس لیے جنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے باوجود مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کہ محمد(ص) حرمت والے مہینوں میں بھی خونریزی کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی، جس میں مشرکین مکہ کی ان خلاف ورزیوں کا ذکر ہے جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرتے رہے ہیں اور جن کی برائی ماہ حرام میں لڑائی سے بھی زیادہ سنگین ہے:

۱۔ راہ خدا سے روکنا، یعنی لوگوں کو اپنی پسند کا برحق مذہب قبول کرنے کی اجازت نہ دینا اور اس امر میں ان کی آزادی، جو ایک انسانی حق ہے، سلب کرنا۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا جو نہایت سنگین جرم ہے۔

۳۔ مسجد الحرام کی حرمت کو پامال کرنا۔

۴۔ مکہ کے باشندوں کو صرف عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر وہاں سے نکال دینا جو ایک عظیم جرم ہے۔ جیسا کہ کفار نے رسول خدا (ص) اور مؤمنین کو مکہ سے نکالا تھا۔

۵۔ ان کا فتنہ جو قتل و خونریزی سے بھی بدتر ہے۔

۶۔ مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھنا اور مسلمانوں کو دوبارہ کافر بنانے کی سرتوڑ کوشش کرنا۔

۷۔ آخر میں تنبیہ کی گئی کہ خبردار اگر کسی نے اپنا مذہب بدل دیا اور وہ کفر کی حالت میں مر گیا تو اس کے سارے اعمال برباد ہو جائیں گے۔

اہم نکات

۱۔ فتنہ انگیزی قتل سے بھی سنگین جرم ہے: وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ۔۔۔۔

۲۔ انسانی حقوق کی پامالی، ماہ حرام کی ہتک حرمت سے زیادہ سخت ہے: قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: مستدرک الوسائل ۱۱: ۴۸۔ بحار الانوار ۵۶: ۱۶۔ قصص الراوندی ص ۳۳۹


آیت 217