آیات 65 - 66
 

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَلۡقٰی﴿۶۵﴾

۶۵۔ (جادوگروں نے )کہا: اے موسیٰ! تم پھینکو گے یا پہلے ہم پھینکیں؟

قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴿۶۶﴾

۶۶۔ موسیٰ نے کہا: بلکہ تم پھینکو، اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔

تفسیر آیات

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ساحروں کو پہل کرنے کے لیے کہا تاکہ باطل اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے۔ اسی طرح حق، باطل کو جب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی مہلت دیتا ہے اور باطل اس مہلت میں اچھل کود کرتا ہے تو چشم ظاہر بین انجام کا انتظار کیے بغیر اس کو باطل کی کامیابی تصور کرتی ہے۔

یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی: چنانچہ باطل نے اپنی کاذب طاقت کا مظاہرہ کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں آیا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں جب کہ حقیقت میں ان لاٹھیوں اور رسیوں میں روح نہیں آئی تھی لیکن جادو کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ایک غیر واقع چیز کو واقع دکھایا جائے۔ چنانچہ سورۃ الاعراف: ۱۱۶ میں فرمایا:

سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ ۔۔۔۔

لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا۔

اور اسی سورہ کی آیت ۱۱۷ میں فرمایا:

فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ ۔

یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔

اہم نکات

۱۔ اہل حق کو باطل کی وقتی اُچھل کود سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔


آیات 65 - 66