آیت 29
 

فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا﴿۲۹﴾

۲۹۔ پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا لوگ کہنے لگے: ہم اس سے کیسے بات کریں جو بچہ ابھی گہوارے میں ہے؟

تفسیر آیات

حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو یقین تھا کہ بچہ خود ماں کی طہارت کی گواہی دے گا۔ یہ یقین یا تو سابقہ تجربہ سے آیا ہے اگر پائنتی سے بات کرنے والے خود عیسیٰ علیہ السلام تھے یا فرشتوں کے کہنے پر یقین آیا ہو گا۔ یہ بات زیادہ قرین واقع نظر آتی ہے کہ جہاں چپ کا روزہ رکھنے کا حکم آیا ہے وہاں اس بات کی یقین دہانی ہو گئی ہو گی کہ بچہ خود گواہی دے گا۔

منکرین معجزہ کَانَ کو ماضی بعید کے معنوں میں لے جا کر یہ ترجمہ کرتے ہیں: ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ گہوارے کا ہے۔ جب کہ کَانَ یہاں ثبت کے معنوں میں آیا ہے۔ جیسا کہ سابقہ آیت میں اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا میں ہے۔ اس لفظ کا ثبت کے معنوں میں آنا اصطلاح اور قرآنی استعمال میں فروان ہے۔ جیسے:

وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا (۱۷بنی اسرائیل: ۳۳)

جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے، پس اسے بھی قتل میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، یقینا نصرت اسی کی ہو گی۔

یعنی نصرت لازم و ثابت ہے۔

نیز سورہ آل عمران آیت ۴۶ اور سورہ مائدہ آیت ۱۱۰ میں فرمایا:

وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ

تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا ۔۔۔۔

تم گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے۔

ان دو آیات میں کسی کَانَ کے بغیر گہوارے میں بات کرنے کی صراحت موجود ہے۔


آیت 29