آیات 27 - 28
 

فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا﴿۲۷﴾

۲۷۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں، لوگوں نے کہا: اے مریم! تو نے بہت غضب کی حرکت کی۔

یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّ مَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۖۚ۲۸﴾

۲۸۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔

تشریح کلمات

فَرِیًّا:

( ف ر ی ) الفری۔ الامر العظیم ( العین )

تفسیر آیات

توقع کے مطابق قوم کے افراد نے اس معاملے کو بہت بڑی فضیحت قرار دیا۔

یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ: ھارون کی بہن۔ اس بارے میں متعدد اقوال مجمع البیان میں مذکور ہیں:

i۔ بنی اسرائیل میں ہارون نام کی ایک مقدس شخصیت گزری تھی۔ پرہیزگاری میں لوگ ان کو بطور مثال پیش کرتے تھے۔ اس طرح اخت ہارون سے مراد شبیہ ہارون ہے۔

ii۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے بھائی کا نام ہے جو باپ کی طرف سے بھائی تھے، نہ ماں سے۔

iii۔ ہارون سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون ہیں اور اخت سے مراد برادری ہے۔ جیسے اخو تمیم کہتے ہیں۔

مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کی طرف روانہ فرمایا۔ وہاں لوگوں نے کہا: أرأیت ما تقرؤن یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ ۔ جب کہ ہارون اور عیسیٰ (علیہما السلام) میں بڑا فاصلہ ہے۔ میں نے واپس آ کر رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا تو فرمایا: کیا تم نے نہیں کہا:ـ انہم یسمون بالانبیاء والصالحین قبلہم ۔ وہ سابقہ انبیاء و صالحین کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ (کتاب سعد السعود: ۲۲۱)

نیز حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا تعلق نسل ہارون کے قبیلہ لاوی سے ہے۔ لہٰذا جیسے اخا ہاشم، اخا تمیم کہتے ہیں، اخت ہارون کہنا بھی درست ہے۔


آیات 27 - 28