آیات 191 - 192
 

وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹۱﴾

۱۹۱۔ اور انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے، ہاں مسجد الحرام کے پاس ان سے اس وقت تک نہ لڑو جب تک وہ وہاں تم سے نہ لڑیں، لیکن اگر وہ تم سے لڑیں تو تم انہیں مار ڈالو، کافروں کی ایسی ہی سزا ہے۔

فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۹۲﴾

۱۹۲۔ البتہ اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

کلام کا رخ مشرکین مکہ کے ساتھ قتال کی طرف ہے۔ آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے دو نکات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ مسلمان اس وقت کعبہ کو اپنا قبلہ قرار دے چکے تھے۔دوسرا یہ کہ کعبہ اس وقت تک مشرکین کے قبضے میں تھا۔ ان حالات میں مسلمان حج کے لیے جاتے تو لڑائی کا چھڑ جاناایک طبعی بات نظر آرہی تھی۔ اس لیے حکم ہوا کہ مشرکین کے ساتھ جہاں مقابلہ پیش آئے، ان سے لڑا جائے اوران پر سختی کی جائے تاکہ وہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ جس طرح ان لوگوں نے ہجرت سے قبل اور بعد از ہجرت مسلمانوں کو مکہ چھوڑنے پرمجبور کیا تھا اور صرف اسلامی نظریات و عقائد اپنانے کے جرم میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

فتنہ: لفظ فتنہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد آزمائش و امتحان ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ {۲۹ عنکبوت: ۱۔ ۲}

کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے۔

اس کے برخلاف جب یہ لفظ انسان کی طرف منسوب ہو تو اس سے فساد مراد لیا جائے گا۔

فتنہ قتل سے بدتر ہے: وہ فتنہ جو انسان سے صادر ہوتا ہے، وہ قتل سے بھی برا ہے۔ اس آیہ شریفہ کی ترکیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جس فتنے کے مشرکین مکہ مرتکب ہوئے تھے اور جو قتل سے بھی برا عمل تھا، وہ صرف عقائد و نظریات کی وجہ سے پر امن لوگوں کو گھروں سے نکالنا اور ان کا امن و سکون چھیننا تھا۔ لہٰذا اب ایسے لوگوں کے ساتھ قتال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جنہوں نے قتل سے بھی بدتر جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ کیونکہ قتل سے دنیاوی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جب کہ فتنہ و فساد کے نتیجے میں دو جرم واقع ہوتے ہیں:

۱۔ قتل اور کشت و خون بکثرت واقع ہوتے ہیں۔

۲۔ فتنہ و فساد پھیلانے والے، دوسرے لوگوں کو حق کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں تک حق کا پیغام نہیں پہنچنے دیتے۔وہ حق پرستوں کے مقابلے میں عقل و منطق کی جگہ طاقت اور تشدد سے کام لیتے ہیں۔ لہٰذا فتنہ دنیاوی اوراخروی زندگی دونوں کے منافی جرائم کے ارتکاب کا موجب ہے۔

آیت میں بیان شدہ احکام کا خلاصہ

حکم ہوا کہ مشرکین مکہ کے ساتھ جہاں کہیں بھی مقابلہ پیش آئے جنگ کرو۔ انہیں مکہ سے نکال دو، جس طرح انہوں نے تمہیں نکالا تھا، کیونکہ مشرکین مکہ نے فتنے کا ارتکاب کیاہے جو قتل سے بھی برا عمل ہے۔ اس کے باوجود مسجد الحرام کے پاس ان سے قتال نہ کرو کیونکہ مسجد الحرام کی حرمت بہرحال ان تمام باتوں پر مقدم ہے۔ البتہ اگر مشرکین مسجد الحرام کے پاس لڑائی میں پہل کریں تو جواباً تم بھی ان کے ساتھ لڑو۔

ان تمام انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کے باوجود اللہ کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ہے۔ سَبَقَتْ رَحْمَتُہٗ غَضَبَہٗ ۔ {مصباح الکفعمی ص ۱۰۵} پس وہ اگر باز آجاتے ہیں تو اللہ ان سے درگزر فرمائے گا۔

اہم نکات

۱۔ صرف عقائد و نظریات کی بنا پر، پرامن لوگوں کو ہراساں کرنا اورانہیں ظلم و تشدد کانشانہ بنانا مشرکین کاشیوہ ہے۔

۲۔ اسلام کے اصلاحی اورتربیتی اصولوں کے مطابق فتنہ گرکو قتل کرنے میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے۔

۳۔ مومن کی حرمت کعبہ سے بالاتر ہے۔ حرمۃ المؤمن اعظم من حرمۃ ہذہ البنیۃ ۔ (بحار الانوار ۴۷ : ۸۹)

۴۔ دشمن کی جنگی صلاحیت کو مفلوج کرنا چاہیے: وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ ۔۔۔۔


آیات 191 - 192