آیت 190
 

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۱۹۰﴾

۱۹۰۔اور تم راہ خدا میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

تشریح کلمات

قتال:

( ق ت ل ) اس شخص کو قتل کرنے کی کوشش، جو اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔

شان نزول: یہ آیت صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی جب رسول خدا (ص) اپنے ایک ہزار چار سو (۱۴۰۰) اصحاب کے ساتھ عمرہ کرنے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ جب حدیبیہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے انہیں روک لیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے حدیبیہ میں ہی اپنی قربانیوں کو نحر (ذبح) کیا اور اس بات پرصلح ہوئی کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال رسول اللہ(ص) عمرہ ادا کرنے آئیں گے تو مشرکین مکہ تین دن کے لیے مکہ خالی کر دیں گے تاکہ حضور (ص) خانہ کعبہ کا طواف کر سکیں۔ چنانچہ آپ (ص) مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

آئندہ سال عمرہ بجا لانے کے لیے آپ (ص) اپنے اصحاب کے ساتھ تیار ہوئے تو ڈر تھا کہ قریش وعدوں پرشاید عمل نہ کریں اور راستہ روک لیں اورجنگ چھڑ جائے، جب کہ آپ (ص) ماہ حرام میں جنگ کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔

تفسیر آیات

روایات کے مطابق مسلمانوں کو پہلی مرتبہ یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ دعوت اسلام کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں،ان کے خلاف مسلح جہاد کرو۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر اور مناسب وقت تک انتظار کی ہدایت کی جاتی تھی مثلاً:

کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ۔۔۔ {۴ نساء: ۷۷}

اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔

فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ۔ {۲ بقرہ: ۱۰۹}

پس آپ در گزر کریں اور نظر انداز کر دیں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے۔

اس آیت میں تین قسم کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں:

۱۔ جہاد کا حکم :اور یہ ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔

۲۔ راہ خدا میں جہاد کا حکم: فتح و نصرت، غلبہ و اقتدار اور مال غنیمت کا حصول ذاتی عناد کی تسکین اور کشور کشائی کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کی زمین پر خدا ہی کی حکومت کے قیام، مؤمنین کی حمایت اور ظلم وستم کے خاتمے کی خاطر جہاد کا مقدس فریضہ انجام دیا جائے۔

۳۔ حکم جہاد کے ساتھ حد سے تجاوز نہ کرنے کا حکم: اس حکم میں دفاع کی خاطر لڑی جانے والی جنگ کے لیے حدود اور قوانین بیان فرمائے۔ یہ حدود انسانی حقوق کا ابدی دستور ہیں۔ آج تک کی مہذب قوموں میں نہ ایسا جامع دستور موجود ہے، نہ کبھی انہوں نے اپنی جنگوں میں ان انسانی حقوق کا لحاظ رکھا ہے۔

احادیث کی روشنی میں جنگی حدود وقیود اور حربی اخلاق کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے:

۱۔ صرف ان سے لڑائی کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور دعوت اسلام کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں۔

۲۔ دعوت الی الحق سے پہلے، جنگ میں پہل نہ کرو۔

۳۔ عورتوں،بچوں،بوڑھوں اور زخمیوں کو قتل نہ کرو۔

۴۔ دشمن کے مقتولوں کا مثلہ نہ کرو۔

۵۔ مویشیوں، کھیتوں اور درختوں کو بلاوجہ تباہ نہ کرو۔

اہم نکات

۱۔ اسلام ان لوگوں کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے جو مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔


آیت 190