آیات 74 - 75
 

فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰہِ الۡاَمۡثَالَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دیا کرو، (ان چیزوں کو) یقینا اللہ بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا عَبۡدًا مَّمۡلُوۡکًا لَّا یَقۡدِرُ عَلٰی شَیۡءٍ وَّ مَنۡ رَّزَقۡنٰہُ مِنَّا رِزۡقًا حَسَنًا فَہُوَ یُنۡفِقُ مِنۡہُ سِرًّا وَّ جَہۡرًا ؕ ہَلۡ یَسۡتَوٗنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ اللہ ایک غلام کی مثال بیان فرماتا ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کسی چیز پر قادر نہیں اور دوسرا (وہ شخص) جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دے رکھا ہے پس وہ اس رزق میں سے پوشیدہ و علانیہ طور پر خرچ کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰہِ الۡاَمۡثَالَ: اللہ کے لیے تم اپنے محسوسات کی روشنی میں مثالیں نہ دیا کرو کہ اللہ کی بیٹیاں ، بیٹے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں رسائی حاصل کرنے کے لیے بتوں کا ذریعہ اختیار کرنا پڑتا ہے جیساکہ دنیوی بادشاہوں تک پہنچنے کے لیے مقربین کو ذریعہ بنانا پڑتا ہے۔ تم ذات خدا کی صفات کو جانتے نہیں ہو۔

۲۔ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا عَبۡدًا: اس باب میں صحیح مثال اللہ پیش فرماتا ہے کہ مملوک اور مالک برابر نہیں ہوسکتے اور یہ بات چونکہ تمہارے لیے محسوس اور تمہارے مشاہدے میں آتی ہے اس لیے تمہیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ الحمد اللہ! حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ حقیقی مالک اور حقیقی مملوک کا برابر ہونا قابل تصور اور معقول نہیں ہے۔ ایک مالک ہے وہ اپنا مال دوسروں پر خرچ کرتا ہے اور مملوک کسی مال کا مالک ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کسی کا مال ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ بے بس غلام اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جسے اللہ نے رزق دیا ہے تو وہ بت جو ایک غلام سے بھی زیادہ بے بس ہے، خود رازق اللہ کے برابر کیسے ہو سکتا ہے؟


آیات 74 - 75