آیت 86
 

بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ: ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شعیب ؑکی قوم تجارت پیشہ تھی۔ اللہ کا رسول جہاں انسان کو الٰہی اقدار سے روشناس کراتا ہے وہاں معاشرتی اصلاح پر بھی توجہ دیتا ہے۔ ناپ تول میں کمی کر کے کمائی گئی ناجائز کمائی سے معاشرے کو پاک کرنا چاہتا ہے اور جائز منافع کمانے پر اکتفا کرنے کی نصیحت فرماتا ہے۔ تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والے جائز منافع کو بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے تعبیر کرنا یہ بتاتا ہے کہ تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والا منافع اللہ کی عنایت ہے بشرطیکہ تاجر مؤمن ہو: وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ ۔۔۔۔ ( ۱۸ کہف: ۴۶)

بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ: اس آیت میں یہ جملہ قوم شعیب کے بارے میں ہے اور بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے مراد حلال منافع ہے۔ روایات کے مطابق یہی جملہ حضرت قائم آل محمد علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس کو اقتباس کہہ سکتے ہیں اور تطبیق بھی۔

۲۔ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ: میں اس بات کا ذمے دار نہیں ہوں کہ تم اپنے معاملات میں خیانت کرو، پھر تمہیں عذاب الٰہی سے بچاؤں یا مطلب یہ ہو سکتا ہے: تمہاری خیانت کے باوجود میں تمہارے لیے اللہ کی نعمتوں کو تمہارے لیے باقی رکھنے کا ذمے دار نہیں ہوں۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کے لیے تجارتی منافع عنایت الٰہی ہے: بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ انبیاء کو دلوں سے کام ہے اس لیے نصیحت فرماتے ہیں ، طاقت استعمال نہیں کرتے: وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ ۔۔۔


آیت 86