آیات 42 - 43
 

وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُ اۨبۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کچھ فاصلے پر تھا پکارا: اے بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔

قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعۡصِمُنِیۡ مِنَ الۡمَآءِ ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الۡیَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ ۚ وَ حَالَ بَیۡنَہُمَا الۡمَوۡجُ فَکَانَ مِنَ الۡمُغۡرَقِیۡنَ ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اس نے کہا: میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح نے کہا: آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے، پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا۔

تفسیر آیات

۱۔ یۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ: ’’پہاڑ جیسی موجوں میں‘‘ کی تعبیر سے طوفان کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔

۲۔ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ: حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس کا نام کنعان بتایا جاتا ہے کشتی سے کچھ فاصلہ پر تھا اور کشتی پر سوار نہیں ہو رہا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بڑے شفیق لہجے میں اسے کشتی پر سوار ہونے کے لیے پکارا کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ ؑکے علم میں نہیں لایا تھاکہ یہ بیٹا نفاق کا مرتکب ہو رہا ہے اور ایمان نہیں لایا ہے۔ وہ درحقیقت جس طرح کشتی سے فاصلہ پر تھا ایمان سے بھی فاصلہ پر تھا۔

۳۔ قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ: اس لیے اس عاق الوالد بیٹے نے باپ کی شفقت بھری آواز کو مسترد کر دیا اور نجات کے حقیقی ذریعے کشتی کو چھوڑ کر ایک موہوم ذریعے پہاڑ کی طرف دوڑا۔ اس موہوم ذریعے نے اس کو نہیں بچایا اور وہ غرق ہو گیا۔

اہم نکات

۱۔ وسیلہ وہ ہوتا ہے جس کی نشاندہی اللہ اور اس کا رسول کریں: ارۡکَبۡ مَّعَنَا ۔۔۔

۲۔ ایمان کی دولت سے محروم لوگ حقیقی وسیلہ نجات کی جگہ موہوم وسیلے کی طرف دوڑتے ہیں : قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعۡصِمُنِیۡ ۔۔۔۔

۳۔ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے۔ رسولؐ کی آواز پر لبیک نہ کہنے والے پہاڑ کی طرف دوڑپڑے: وَّ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ فِیۡۤ اُخۡرٰىکُمۡ ۔۔۔۔ (۳آل عمران: ۱۵۳)


آیات 42 - 43