آیت 83
 

فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوۡسٰۤی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ عَلٰی خَوۡفٍ مِّنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہِمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ لَعَالٍ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ چنانچہ موسیٰ پر ان کی اپنی قوم کے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت سے دوچار نہ کر دیں کیونکہ ملک میں فرعون کی بالادستی تھی اور وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ سے مراد مفسرین نے کہا ہے کہ ضعیف اور کمزور لوگ ہیں۔ یعنی قوم موسیٰ سے چند بے آسرا لوگ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور ممکن ہے ذریت سے مراد چھوٹی عمر کے جواں سال افراد ہوں جو فرعون کے جبر و استبداد اور ظلم و تشدد کی پرواہ کیے بغیر ایمان لے آئے۔ اس خوف کے پیچھے جو اسباب کار فرما تھے قرآن مجید ان کو بیان فرماتا ہے۔ وہ دو باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ لَعَالٍ فِی الۡاَرۡضِ فرعون کو اس ملک میں بالا دستی حاصل تھی اور دوسری بات یہ کہ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ وہ کسی قانون و اخلاق یا انسانی قدروں کی حد بندی کا قائل نہ تھا۔ طاغوت کے پاس جب طاقت اور بالادستی آ جاتی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا ہر ایک کے بس بات نہیں ہوتی۔

۲۔ قَوْمِہٖ سے قوم فرعون اور بنی اسرائیل کی قوم یا دونوں مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ جس قوم کی طرف موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے وہ بنی اسرائیل اور قبطی قوم دونوں ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ابو جعفر الاحول سے فرما رہے تھے:کیا تو بصرہ گیا تھا؟

عرض کیا: جی ہاں

فرمایا: لوگوں کا ہماری طرف رجوع اور ہمارے مکتب میں شمولیت کیسی تھی؟

عرض کیا: بہت کم۔

فرمایا: علیک بالاحداث فانہم اسرع الی کل خیر ۔ تم نئی نسل پر توجہ دو۔ وہی لوگ ہر کار خیر کی طرف سبقت لے جاتے ہیں۔( الکافی ۸: ۹۳)

اہم نکات

۱۔ ایمان کی تاریخ ان لوگوں نے بنائی جو جابروں کے ظلم وتشدد کی پرواہ کیے بغیر ایمان لے آئے۔


آیت 83