آیت 78
 

قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَلۡفِتَنَا عَمَّا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا وَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا نَحۡنُ لَکُمَا بِمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔

تشریح کلمات

لِتَلۡفِتَنَا:

( ل ف ت ) لفتہ عن کذا ۔ کسی چیز سے پھیر دینا۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا: حضرت موسیٰ علیہ السلام جو کچھ پیش کر رہے تھے وہ مصریوں کے آبائی مذہب کے سراسر خلاف تھا۔

۲۔ وَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ: مصری مذہب کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو خدا کا اوتار مانتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا نتیجہ آج کل کی اصطلاح کے مطابق دینی اور سیاسی یکساں طور پر نکلتا تھا۔ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا مطلب یہ بنتا تھا کہ مصر کی بادشاہت غیر قانونی ہے اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام اللہ کے حقیقی نمائندہ ہیں۔ اس سے واضح ہو رہا تھا کہ مصری مذہب نے جو مقام فرعون کو دے رکھا تھا، حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام اللہ کے نمائندے ہونے کے اعتبار سے اسی مقام کے مدعی تھے۔

اہم نکات

۱۔ مفاد و اقتدار پرستوں کے ساتھ دین کی جنگ رہی ہے: وَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ ۔۔۔۔

۲۔ متکبر اپنی کبریائی اور اقتدار چھوڑ کر ایمان نہیں لاتا: ۭوَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ ۔


آیت 78