آیات 76 - 77
 

فَلَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡۤا اِنَّ ہٰذَا لَسِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷۶﴾

۷۶۔پھر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے: بے شک یہ تو صریح جادو ہے ۔

قَالَ مُوۡسٰۤی اَتَقُوۡلُوۡنَ لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَکُمۡ ؕ اَسِحۡرٌ ہٰذَا ؕ وَ لَا یُفۡلِحُ السّٰحِرُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔ موسیٰ نے کہا : جب حق تمہارے پاس آیا تو کیا اس کے بارے میں یہ کہتے ہو، کیا یہ جادو ہے؟ جب کہ جادوگر تو کبھی فلاح نہیں پاتے۔

تفسیر آیات

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو معجزات پیش کیے تھے ان کے انکار کے لیے منکرین کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ اسے جادو قرار دیں جب کہ حق اور جادو میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ کیا جادو کے ذریعے انسان ساز دستور دیا جا سکتا ہے؟ کیا جادو کے ذریعے دارین کی سعادت کے لیے انسان کی رہنمائی کی جا سکتی ہے؟کیا جادو انسان کو اخلاق و روحانیت کی منزل پر فائز کر سکتا ہے؟

۲۔ اَسِحۡرٌ ہٰذَا: تم حق کو جادو کہتے ہو۔ پھر استفہام انکاری کے طور پر فرمایا: کیا یہ جادو ہے؟ اَتَقُوۡلُوۡنَ لِلۡحَقِّ تم حق کو جادو کہتے ہو جب کہ حق امر واقع کی نشاندہی کرتا ہے اور جادو صرف نظروں کا دھوکہ ہوتا ہے۔ اس کا حق اور امر واقع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ حق ساتھ نہ ہو تو تصنع سے کامیابی نہیں ملا کرتی: وَ لَا یُفۡلِحُ السّٰحِرُوۡنَ ۔


آیات 76 - 77