آیت 39
 

بَلۡ کَذَّبُوۡا بِمَا لَمۡ یُحِیۡطُوۡا بِعِلۡمِہٖ وَ لَمَّا یَاۡتِہِمۡ تَاۡوِیۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علم میں نہیں آئی اور ابھی اس کا انجام بھی ان کے سامنے نہیں کھلا، اسی طرح ان سے پہلوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔

تفسیر آیات

۱۔ بَلۡ کَذَّبُوۡا بِمَا لَمۡ یُحِیۡطُوۡا بِعِلۡمِہٖ: انہوں نے اس قرآن کو جھٹلایا ہے جس کے حقائق سے وہ آگاہ ہی نہیں۔ کسی چیز کو قبول یا رد کرنے کا حق اس وقت پہنچتا ہے جب وہ اس چیز کے بارے میں پوری طرح کھوج لگایا ہو۔ ایک ایک بات کی تحقیق کی ہو۔ ان مشرکین نے تو کسی قسم کی علمی صلاحیت اور کاوش سے پہلے صرف اس ضد کی بنا پر قرآن کی تکذیب کی کہ یہ ہمارے معبودوں کو رد کرتا ہے۔

۲۔ وَ لَمَّا یَاۡتِہِمۡ تَاۡوِیۡلُہٗ: اور نہ ہی اس تکذیب کا انجام جو خود عذاب سے عبارت ہے ابھی ان کے سامنے کھلا ہے۔ جب عذاب الٰہی ان کے سامنے آئے گا تو وہ بطور اضطرار تصدیق کریں گے۔ وہاں تکذیب کی گنجائش نہیں ہو گی۔

تاویل سے مراد اس تکذیب کا انجام ہے۔عذاب جو ابھی ان کے سامنے نہیں ہے۔ ان لوگوں کو قرآنی حقائق کا علم ہی نہیں تو وہ ان چیزوں کی تکذیب کر رہے ہیں جو ان کے احاطہ علم میں آئی ہی نہیں۔ اس کا انہیں علم نہیں ہے۔ نہ بذات خود علم رکھتے ہیں ، نہ رسول ؐکے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں۔

۳۔ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ: تکذیب کا یہ عمل بھی اپنی جگہ انوکھا نہیں۔ سابقہ انبیاء علیہم السلام میں کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔

اہم نکات

۱۔ کفر و تکذیب جہالت کی وجہ سے سرزد ہوتی ہے۔

۲۔ انجام گناہ پر علم و آگاہی سے گناہ سرزد نہیں ہوتا۔

۳۔ ادیان کے بارے میں لوگوں کی طرف سے تاریخ دہرائی جاتی رہی ہے۔


آیت 39