آیات 26 - 27
 

فَلَمَّا رَاَوۡہَا قَالُوۡۤا اِنَّا لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ مگر جب انہوں نے باغ کو دیکھا تو کہا: ہم تو راستہ بھول گئے ہیں۔

بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ (نہیں) بلکہ ہم محروم رہ گئے ہیں۔

تفسیر آیات

باغ کا نشان تک نہ ملنے پر انہوں نے شروع میں تو یہ خیال کیا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں، کسی غیر آباد جگہ پہنچ گئے ہیں۔ بعدمیں ہوش میں آ کر دیکھا جگہ وہی ہے۔ جگہ بھولے نہیں ہیں بلکہ باغ سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ ہمارا ہی باغ ہے جو تباہ ہو گیا ہے۔

واضح رہے مالداروں کی دولت میں سے مسکینوں کو ان کا حصہ نہ دینے کی صورت میں تباہی ہمیشہ نہیں آتی بلکہ یہ اس صورت میں ہے کہ مساکین کو جو حق مل رہا تھا اسے روک دیا جائے اور ان کی توقعات اس سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی آس توڑ دی جائے تو عذاب آتا ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کی آہ میں ایک بہت بڑا اثر ہے۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو: وَ اٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۴۱) البتہ ان کی فصل کاٹنے کے دن اس (اللہ) کا حق (غریبوں کو) ادا کرو۔


آیات 26 - 27