آیات 33 - 35
 

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ مجھے بتلاؤ جس نے منہ پھیر لیا،

وَ اَعۡطٰی قَلِیۡلًا وَّ اَکۡدٰی﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور تھوڑا سا دیا اور پھر رک گیا؟

اَعِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡغَیۡبِ فَہُوَ یَرٰی﴿۳۵﴾

۳۵۔ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے وہ دیکھ رہا ہے؟

تشریح کلمات

الکدی:

( ک د ی ) الکدیۃ کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ محاورہ ہے حفر فاکدی وہ گڑھا کھودتا ہوا سخت زمین تک جا پہنچا اور مزید کھدائی سے رک گیا۔ استعارہ کے طور پر اکدی کا لفظ تھوڑا سا دے کر ہاتھ روک لینے اور ناکام ہونے پر بولا جاتا ہے۔

شان نزول

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی: مفسرین کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی پیروی کرنے لگا تو دیگر مشرکوں نے اسے گمراہ کیا یہ کہہ کر کہ تم نے اپنے بزرگوں کا دین ترک کر کے یہ نظریہ اپنا لیا کہ ہمارے بزرگ جہنم میں ہیں؟ ولید نے کہا: میں اللہ کے عذاب سے ڈر گیا تھا۔ اس پر اس مشرک نے کہا: اگر تو مجھے کچھ مال دے دے اور شرک کی طرف واپس آ جائے تو تیرا عذاب میں خود اُٹھاؤں گا۔ اس نے ایسا ہی کیا، شرک کی طرف واپس چلا گیا۔ کچھ دیر مال دینے کے بعد اس نے مال دینا بند کر دیا۔ اس شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

شان نزول میں دیگر مختلف اور متعدد روایات بھی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی: اس شخص کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جس نے دین اسلام سے منہ موڑا۔ پھر تھوڑا مال دینے کے بعد رک گیا۔

۲۔ کیا اس کے پاس علم غیب تھا جس کے ذریعے اسے معلوم ہوا کہ آخرت کے عذاب سے اس طرح بچ سکتا ہے یعنی مال دے کر کسی اور کے ذمے ڈالا جا سکتا ہے۔


آیات 33 - 35