آیت 32
 

اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾

۳۲۔ جو لوگ گناہان کبیرہ اور بے حیائیوں سے اجتناب برتتے ہیں سوائے گناہان صغیرہ کے تو آپ کے رب کی مغفرت کا دائرہ یقینا بہت وسیع ہے، وہ تم سے خوب آگاہ ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے بنایا اور جب تم اپنی ماؤں کے شکم میں ابھی جنین تھے، پس اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتاؤ، اللہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ: آیت کا تسلسل الَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا بِالۡحُسۡنٰی کے ساتھ ہے۔ جو لوگ نیکی کرنے والے ہیں اور ساتھ گناہان کبیرہ اور بے حیائیوں سے اجتناب کرتے ہوں انہیں جزائے خیر ملے گی۔

۲۔ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ گناہان کبیرہ کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

کُلُّ مَا اَوْعَدَ اللہُ عزَّ وَ جَلَّ عَلَیْہ النَّارِ۔ (الفقیہ ۳: ۵۶۹)

گناہ کبیرہ وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی سزا رکھی ہے۔

دیگر روایات میں بطور مثال شراب نوشی، زنا، ربا، عاق والدین اور جنگ سے فرار کا ذکر ہے۔

۳۔ وَ الۡفَوَاحِشَ: بے حیائی یعنی وہ گناہ جو انسان کے شرم و حیا کی نفی سے متعلق ہیں جیسے زنا اور چوری۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی روایت میں الفواحش کی تشریح زنا اور چوری سے کی ہے۔ (الکافی ۲: ۲۷۸) قرآن کی دیگر آیات میں زنا اور لواط کو فواحش میں شمار کیا ہے:

وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً۔۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۳۲)

اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقینا یہ بڑی بے حیائی ہے۔

قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ۔۔۔۔ (۲۷ نمل: ۵۴)

کیا تم بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو؟

ان آیات و روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جو گناہ کبیرہ اور فواحش دونوں میں شامل ہیں۔

۴۔ اِلَّا اللَّمَمَ۔ لمم: العین میں آیا ہے: اللمم الالمام بالذنب الفینۃ بعد الفینۃ یعنی لمم کے معنی ہیں وقتاً فوقتاً گناہ کرنا۔

لمم کی تعریف گناہان صغیرہ سے بھی کی جاتی ہے لیکن ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں لمم کی تعریف ان گناہوں سے کی گئی ہے جو وقتاً فوقتاً سرزد ہوتے ہیں، ہمیشہ نہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

قال: اللَّمَّامُ الْعَبْدُ الَّذِی یُلِمُّ الذَّنْبَ بَعْدَ الذَّنْبِ، لَیْسَ مِنْ سَلِیْقَتِہِ اَیْ مِنْ طَبِیعَتِہِ۔ (الکافی ۲: ۴۴۲ باب اللمم)

لمام وہ بندہ ہے جو گناہ کے بعد کبھی گناہ کرتا ہے یعنی گناہ کرنا اس کا مزاج اور طبیعت نہیں ہے۔

دوسری روایت میں فرمایا:

اللَّمَمُ الرَّجُلُ یُلِمُّ بِالذَّنْبِ فَیَسٖتَغْفِرُ اللہَ مِنْہُ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۳۷۸)

لمم کے معنی ہیں بندہ گناہ کرتا ہے پھر اس گناہ سے استغفار کرتا ہے۔

یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۳۵)

اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔

اس آیت اور روایت کی روشنی میں گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس کا انسان خوگر ہو جاتا ہے اور گناہ اپنے سلیقہ کار میں شامل رکھتا ہے۔ صغیرہ وہ گناہ ہے جس کے بعد انسان احساس گناہ اور استغفار کرتا ہے۔ یہی مطلب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک روایت میں ہے:

لَا صَغِیرَۃَ مَعَ الْاِصْرَارِ وَ لَا کَبِیرَۃَ مَعَ الْاِسْتَغْفَارِ۔ (الکافی ۲: ۲۸۸)

ہمیشہ ارتکاب سے گناہ، صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار سے گناہ، کبیرہ نہیں رہتا۔

۵۔ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ: استغفار اور توبہ کی صورت میں اللہ کی مغفرت کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میں ہر گناہ آ سکتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اللَّھُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِی۔۔ ( مستدرک الوسائل ۵: ۱۴۳)

اے اللہ! تیری مغفرت میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے۔

۶۔ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ: اللہ تمہارے بارے میں بہتر علم رکھتا ہے جب تمہیں اللہ مٹی سے بنا رہا تھا (انسان کی تخلیق ارضی عناصر سے ہوئی ہے اور انسان میں موجود تمام عناصر ارضی ہیں) اور جب تم اپنی ماؤں کے شکم میں جنین کی حالت میں تھے، اس وقت اللہ کو علم تھا کہ تم گناہوں کے مرتکب ہونے والے ہو۔ تم میں موجود کمزوریوں کا اللہ کو علم ہے۔ اس لیے اللہ نے توبہ اور وسیع مغفرت کا سہارا عنایت فرمایا ہے۔

۷۔ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ: جب اللہ تمہاری حالت پر خود تمہارے وجود میں آنے سے پہلے باخبر ہے تو تم اپنے نفس کی پاکیزگی کے دعوے نہ کرو۔ اللہ بہتر جانتا ہے تمہارے دعوے کہاں تک درست ہیں۔ اگر اس کا مقصد لوگوں کے سامنے اپنی پاکیزگی کا اظہار کرنا ہے تو یہ خود ستائی اور خود بینی ہے جو بندگی کے سراسر خلاف ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے:

سَیِّئَۃٌ تَسُوئُ کَ خَیْرٌ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ حَسَنَۃٍ تُعْجِبُکَ۔ ( نہج البلاغۃ حکمت: ۴۶)

وہ گناہ جو خود تجھے برا لگے اللہ کے نزدیک اس نیکی سے بہتر ہے جو تجھے خود پسندی میں مبتلا کر دے۔

بلکہ انسان کا لوگوں کے سامنے اپنے اعمال کا ذکر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

قَولُ الْاِنْسَانِ صَلَّیْتُ الْبَارِحَۃَ وَ صُمْتُ اَمْسِ وَ نَحْوَ ھَذَا۔۔۔ (الوسائل ۱: ۷۴)

انسان کا یہ کہنا خود ستائی ہے کہ میں نے رات نماز پڑھی کل روزہ رکھا اور اس طرح کی باتیں۔

اہم نکات

۱۔ گناہ کا ارتکاب شیوہ نہ ہو تو کبھی سرزد ہونے والا گناہ معاف ہو جاتا ہے۔

۲۔ لوگوں کے سامنے اپنے اعمال اور دینی خدمات کے ذکر سے عمل کی قیمت ختم ہو جاتی ہے۔


آیت 32